فوج بری نہیں، جرنیل برے تھے۔ یہ فقرہ ہر وہ کوئی دہراتا ہے جو فوج پر تنقید کرتا ہے مگر جب اس کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے تو جواب میں وہ فوج کی بجائے جرنیلوں پر اپنا غصہ نکال لیتا ہے۔ ہماری سوچ کچھ مختلف ہے۔ ہم کہتے ہیں جب لیڈر برا ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کی تربیت کرنے والا طریقہ کار غلط ہے۔ جرنیل کوئی باہر سے تو آتے نہیں اسی فوج کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ جنرل ایوب، یحی، ضیا اور مشرف اسی فوج میں جونیئر افسربھرتی ہوئے اور فوج کے کمانڈر انچیف بنے۔ ظاہر ہے فوج کا بنیادی ڈھانچہ ہی خراب ہے کیونکہ وہ جنرل نیازی جیسے لیڈروں کی پرورش کرتی ہے جو بعد میں پلٹن میدان میں شہید ہونے کی بجائے ہتھیار ڈال کر دشمن کی قید میں چلے جاتے ہیں۔ اگر یہ نوے ہزار فوجی جاپانیوں کی طرح میدان میں جنگ میں شہید ہو گئے ہوتے تو آج تاریخ میں ان کا نام ہوتا اور پاکستان جاپان جیسا ملک ہوتا۔

کہتے ہیں برے کو نہیں مارو بلکہ برے کی ماں کو مارو تا کہ وہ کوئی اور برا پیدا نہ کر سکے۔ یہی اصول فوج پر لاگو ہونا چاہیے۔ ہماری فوج کی تربیت کا ڈھانچہ برطانوی راج کا بنایا ہوا ہے جسے آج تک بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ فوجی جوانوں کو نماز پر لگانے والے افسر مذہب سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ان کو شراب کباب کا عادی بنا دیا جاتا ہے، جدید تربیت کے بہانے انہیں یورپ کی سیر کرائی جاتی ہے جہاں گوری جمڑی سے ان کی جنسی تسکین کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس طرح دو تین ماہ کے کورس کے بعد وہ کالے انگریز بن کر واپس لوٹتے ہیں۔ ایسے کالے انگریزوں سے محب الوطنی کی توقع کرنا حماقت ہی ہو گی۔ ایسی صورت میں ایک محب وطن اور پارسا فوجی لیڈر کا ابھرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

جنرل کیانی کو تین سال مزید ایکسٹیشن دے کر فوج نے یہی ثابت کیا ہے کہ اس کا سیٹ اپ خراب ہے جو جنرل کیانی جیسا چیف دوبارہ پیدا نہیں کر سکتی۔ خدا کے بندو اگر فوج ڈسپلنڈ ادارہ ہے تو پھر جنرل کیانی اور جنرل شجاع کی مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ کیا ان کے جونیئر نااہل ہیں جو فوج کی سربراہی کے قابل نہیں اور جن پر فوج اعتبار نہیں کر رہی۔ فوج میں یہی ایک روایت زندہ رہ گئی تھی جسے ملیا میٹ کر دیا گیا۔

ہمارے خیال میں فوج کے تربیتی نظام میں اصلاح کر ضرورت ہے۔ یہ ہماری فوج ہی کیوں ہے جس کے سربراہ وطن فروش اور ڈکٹیٹر ہوتے ہیں جو اپنے وطن کی بجائے غیروں کی چاکری کرتے ہیں۔ جنرل ضیا اور مشرف نے  پاکستان کو افغانستان میں جھونک پر پاکستان کو کلاشنکوف، ہیروئین اور دہشت گردی جا جو تحفہ دیا وہ پاکستانی کو تباہی کے دہانے پر لے گیا ہے۔ مغربی ممالک کا فوجی نظام اتنا اچھا کیوں ہے جہاں فوجی بغاوت نہیں ہوتی۔ جہاں عرصے سے مارشل لا نہیں لگا۔ یہ پاکستانی فوج ہی کیوں ہر نو دس سال بعد جمہوریت کا قلع قمع کر کے ڈکٹیٹر بن جاتی ہے۔

اگر ملک سے مارشل لاہ کے خطرے کو ہمیشہ کیلیے ختم کرنا ہے تو پھر کسی نہ کسی سول حکمران کو فوج کے تربیتی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔ برطانوی راج کے بنائے تربیتی نظام کو بدل کر اسلامی تربیتی نظام لانا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر ایوب،یحی، ضیا اور مشرف جیسے جرنیل جمہوری حکومتوں پر شب خون مارتے رہیں گے۔