منہ پھٹ سياستدان جن کو ہم دوسرے لفظوں ميں بھانڈ بھي کہتے ہيں ہميشہ حکومت کيلۓ مسائل پيدا کرتے رہے ہيں۔ اسمبلي کا اجلاس ہو يا کوئي مباحثہ ان کي حاضر جوابي نے عموماً حکومت کے دانت کھٹے کۓ ہيں اور حکومتوں کي ہميشہ يہ کوشش رہي ہے کہ ان کا منہ بند کرنے کيلۓ ان کو کسي بھي قيمت پر ساتھ ملا ليا جاۓ۔
موجودہ دور کے سياسيتدانوں ميں دو نام اس کيٹيگري ميں آتے ہيں اور وہ ہيں موجودہ وزيرِاطلاعات شيخ رشيد اور وزيرِمملکت براۓ قانون ڈاکڑ شير افگن۔ ہم سب کو ياد ہو گا نواز شريف کے دور ميں جب ڈاکڑ شير افگن پيپلز پارٹي ميں تھے تو انہوں نے اسمبلي کے اندر اور اسمبلي کے باہر قانون کے حوالے برجستہ دے دے کر حکمرانوں کا ناک ميں دم کۓ رکھا۔ يہي حال شيخ رشيد نے پيپلز پارٹي کي حکومت کے دور ميں نواز شريف کي مسلم ليگ ميں رہ کر کيا۔
پھر جب موجودہ آرمي کي حکومت آئي تو اس کے مشيروں نے اسے مشورہ ديا کہ سب سے پہلے ان دو سانڈوں کو قابو کيا جاۓ چاہے اس کيلۓچاہے کتني ہي قيمت کيوں نہ ادا کرني پڑے۔ شيخ رشيد کو نيب کا ڈراوا دے کر فوراً ساتھ ملا ليا گيا اور ان کو ان کے تجربہ کے مطابق وزارت بھي دے دي گئي۔ يہي کوشش ڈاکتڑ افگن کو حکومت ميں لے آئي اور اس طرح ايک طرح سے حکومت نے ان دونوں کو خريد کر اپنا کام آسان کر ليا اور ادھر دونوں نے اپني اس خوبي کا پھل کھانا شروع کر ديا۔
اب يہ دونوں سياستدان حکومت کي عنائت کا حقِ نمک ادا کر رہے ہيں۔ شيخ صاحب ميڈيا پر چھاۓ ہوۓ ہيں اور اپنے برجستہ مکالموں سے اپوزيشن کو دباۓ بيٹھے ہيں۔ ادھر شيخ افگن وزيرِقانوں کے کام آسان کۓ بيٹھے ہيں اور اسمبلي کے اندر سارے قانوني داؤ پيچ لڑا رہے ہيں۔
ہميں معلوم ہے کہ اس طرح کي خصوصيّت کے لوگ ہميشہ ترقي کرتے ہيں اور بغير کام کۓ يہ لوگ اپني روزي لگاۓ بيٹھے ہوتے ہيں۔ انہي کي وجہ سے بلکل ناکام کمپنياں ہزارون کا منافع دکھا رہي ہوتي ہيں اور اپنے مخالفين کيلۓ مصيبت بني ہوتي ہيں۔
آپ نےبھي اگرترقي کرني ہے تو باقي ساري محنت کرنے والي خصوصيات چھوڑکر بھانڈ کي ٹريننگ کسي سے لے ليجۓ پھر ساري عمر ان دونوں سياستدانوں کي طرح راج کريں گے اور سواۓ موت يا جيل کے کوئي چيز آپ کي کاميابي ميں رکاوٹ نہيں بنے گي۔