دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں جہاں جہاں بھی فوجی ڈکٹیٹرشپ آئی اس نے دکھاوے کے ایسے ایسے کام کیے جن کا جمہوری دور میں تصور بھی محال ہوتا ہے۔ کسی نے شاہ فیصل مسجد بنوائی تو کسی نے مجرموں کو سرعام کوڑے مارے۔ کسی نے جمہوری حکمران کو پھانسی پر لٹکایا تو کسی نے اسے ملک بدر کر دیا۔

آج کل مصری فوجی حکومت بھی اسی شوبازی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس نے اپنے وقت کے عرب دنیا کے سب سے طاقتور حکمران حسنی مبارک کو پنجرہ نما سٹریچر پر عدالت میں پیش کیا اور یہ کاروائی براہ راست ٹی وی پر دکھائی۔ یہ صرف اور صرف دکھاوا تھا کیونکہ اسی حسنی مبارک نے اسی فوج کی طاقت کے بل بوتے پر مصر پر تین دھائیاں حکومت کی اور اب یہی فوج اسے ذلیل کر رہی ہے تا کہ عوام کے دلوں میں اپنے لیے نرم گوشا پیدا کر سکے اور لمبے عرصے تک مصر پر ڈکٹیٹرشپ قائم رکھ سکے۔ اس ڈکٹیٹرشپ کے پیچھے چھپے راز سے مصری عوام شاید ناواقف ہیں۔ اگر عالمی طاقتیں مصر پر فوجی ڈکٹیٹرشپ قائم نہ کرتیں تو شفاف انتخابات میں عوامی بلکہ اسلامی حکومت کامیابی حاصل کر لیتی اور یہ انہیں منظور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے حسنی مبارک کی ڈکٹیٹرشپ فوجی آمروں سے بدل دی گئی اور اب لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلیے اس طرح کے ڈرامے کیے جا رہے ہیں۔

مصری عوام نے جس مقصد کیلیے تحریک چلا کر حسنی مبارک کو ہٹایا وہ مقصد پورا نہیں ہوا۔ اسی لیے مصری عوام نے التحریر سکوائر میں احتجاج کا سلسلہ دو روز قبل تک جاری رکھا مگر آخرکار فوج نے انہیں وہاں سے مار بھگایا۔

لیکن وقت بدل رہا ہے وہ دن دور نہیں جب ترقی پذیر ممالک کی عوام ان چالوں کو سمجھ جائے گی اور پھر کبھی بھی فوج کو حکومت پر قبضہ نہیں کرنے دے گی چاہے فوج کی پشت پناہی عالمی طاقتیں ہی کیوں نہ کر رہی ہوں۔