کل جمعہ کے خظبہ میں امام صاحب نے قطع تعلقی کو موضوع بنایا۔ یقین کریں ان کی تقریر میں اتنا اثر تھا کہ کئی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ کہنے لگے خدا کا فرمان ہے کہ جس نے رشتے داروں سے تعلق جوڑا اس نے خدا سے تعلق جوڑا اور جس نے رشتے داروں سے تعلق توڑا اس نے خدا سے تعلق توڑا۔ حدیث شریف ہے کہ جس نے رشتے داروں سے تعلق توڑا وہ جنت میں داخل  نہیں ہو گا۔ اگر آپ رشتے داری پر گوگل کریں تو آپ کو پہلی چند سائٹس اسلام کی نظر آئیں گی۔ یعنی اسلام نے رشتے داروں کیساتھ تعلق بنائے رکھنے پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔

حدیث ہے جس نے رشتے دار سے تعلق قائم رکھنے کی آفر بار بار ٹھکرائی وہ آگ میں جلے گا۔ ایک گناہ گار امتی آپ صلعم کے پاس آیا اور کہنے لگا اس نے گناہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا جا اپنی ماں کے پاس جا۔ اس نے کہا میری ماں نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا جا اپنی خالہ کے پاس جا اور اس سے تعلق جوڑ۔

سب سے قریبی رشتہ دار ماں باپ اور ان کے ماں باپ، اپنے بچے اور ان کے بچے، بہن بھائی اور ان کے بچے، خالہ خالو، مامی ماموں اور ان کے بچے ہوتے ہیں۔

یہ واقعی حقیقت ہے کہ اب پاکستان میں رشتے داروں میں دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ دو چار فیملیوں کے مل کر پکنک منانے کی روایت دم توڑتی جا رہی ہے۔ بہن بھائیوں کا مل کر عید منانے کا رواج بھی معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ رشتے قائم رکھنا پاکستان میں اب بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا رشتے دار بال بچوں سمیت ایک دوسرے کے گھر جایا کرتے تھے اور بڑے چھوٹے خوب موج مستی کیا کرتے تھے۔ اب پہلے تو رشتے دار ایک دوسرے سے ملتے ہی نہیں اور اگر کوئی گھر آ بھی جاتا ہے تو میزبان اسے مصیبت تصور کرتا ہے۔

ہمارے نبی صلعم کا فرمان ہے کہ جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو۔ آج کل جیسے ہم کسی ناراض رشتے دار کو فون کرتے ہیں تو وہ فون بند کر دیتا ہے۔ ہمیں اس کو فون کرتے رہنا چاہیے۔ مانا کہ یہ کام بہت مشکل ہے مگر یہی کام جنت کے دروازے آپ کیلیے کھولتا ہے۔ آپ صلعم کی بیوی اور حضرت ابوبکر کی بیٹی حضرت عائشہ پر جس نے تہمت لگائی وہ ان کی کزن تھی اور حضرت ابوبکر نے ان کا وظیفہ لگا رکھا تھا۔ حضرت ابوبکر نے اس کا وظیفہ بند کر دیا۔ جب نبی پاک صلعم کو پتہ چلا تو انہوں نے برہمی کا اظہار کیا اور حضرت ابوبکر کو وظیفہ بحال کرنا پڑا۔

یہ اسی حکم عدولی کا نتیجہ ہے کہ آج کراچی میں موت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اگر اسلام کی صرف اس خوبی کو اپنا لیا جائے تو کراچی پھر سے امن کا گہوارہ بن جائے۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے گزارش ہے کہ خدارا اپنے مذہب کو پڑھیے اور اس کی اچھی اچھی باتوں کو اپنے کارکنوں میں پھیلاِ کر اپنے لیے بھی جنت کا سامان پیدا کیجیے اور اپنے کارکنوں کی زندگیوں میں بھی خوشیاں بھریے۔