کراچی کی کئی دنوں کی قتل و غارت کے بعد ایم کیو ایم اور پی پی پی نے دوبارہ مذاکرات کیے اور پی پی پی کو کراچی اور حیدرآباد میں کمشنری نظام ختم کر کے بلدیاتی نظام بحال کرنا پڑا۔ کتنی عجیب بات ہے ایک ہی صوبے میں دو قسم کے نظام چل رہے ہیں۔ اگر کمشنری نظام کے حکم کو واپس لینا ہی تھا تو سارے سندھ پر اس کا اطلاق کرتے۔ اس طرح تو سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ اب لگتا ہے کراچی اور حیدرآباد کو ملا کر الگ صوبہ بنانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

یہ صوبوں کی بحث آجکل چھڑ چکی ہے اس کے پیچھے ملکی مفاد نہیں بلکہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ پنجاب میں صوبے بنانے کا مطالبہ اس لیے کیا جا رہا ہے تا کہ مسلم لیگ کا ووٹ بنک توڑا جا سکے۔ حیرانی ہے کہ صرف پنجاب میں ہی نئے صوبے بنانے کی بات کیوں ہو رہی ہے باقی صوبوں میں کیوں نہیں۔

ذاتی مفادات کا کھیل اب اس شدت کیساتھ کھیلا جا رہا ہے جیسے کل حکمرانوں کو شاید نصیب ہی نہ ہو۔ ایسے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کو خدا ہی ہدایت دے جو ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دے رہے ہیں ۔