ہمارا بچپن ایک چھوٹے سے قصبے میں متوسط طبقے والے محلے میں گزرا ہے۔ اس وقت متوسط طبقہ مزدور پیشہ اور کلرک لوگ ہوا کرتے تھے۔ آفیسرز کی کمیونٹی ذرا اونچے درجے میں شمار ہوتی تھی۔ صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے ماں باپ کو جاگا دیکھنا۔ والدہ نے ناشتے کی تیاری میں مشغول ہونا اور سب کو باری باری پراٹھے، مکھن اور لسی سے ناشتہ کروانا۔ اس کے بعد سویوں ، حلوے یا کھیر سے منہ میٹھا کرنا۔

پھر عید پڑھنے ہم نے والد صاحب کیساتھ عیدگاہ کی طرف چل پڑنا۔ اس وقت عید کی نمازیں بڑی بڑی مساجد میں ہوا کرتی تھیں مگر زیادہ تر لوگوں کی کوشش ہوتی تھی کہ نماز عیدگاہ جا کر پڑھی جائے۔ جمعہ کے علاوہ عید کا تہوار خطیب کیلیے بہت بڑا فنکشن ہوا کرتا تھا۔ اس موقع پر امام صاحب نے مسجد کیلیے جندہ اکٹھا کرنا اور حتی الوسعی کوشش کرنا کہ عید جتنی دیر سے پڑھائی جا سکے پڑھائی جائے۔ نماز سے پہلے اردو یا پنجابی میں خطبہ اور نماز کے بعد عربی میں خطبہ ہم پر بہت بھاری گزرا کرتا تھا۔ کیونکہ ہمارے ذہن میں اس وقت صرف ایک ہی دھن سوار ہوتی تھی کہ کب گھر جائیں اور سب سے عیدی بٹوریں۔ خطبے کے بعد عیدگاہ میں ہی سب نے عیدی ملنا شروع کردیا کرنی۔

گھر آ کر سب سے پہلے یہ ڈیوٹی لگنی کہ محلے کے گھروں میں کھیر یا حلوہ بانٹ کر آنا۔ اس کے بعد عیدی اکٹھی کرنی اور پھر دوستوں کیساتھ باہر نکل جانا۔ پہلے بازار کی سیر کیا کرنی۔ اس وقت عید کے روز سب سے زیادہ رش حلوائیوں کی دوکان پر ہوا کرتا تھا۔ حلوائی عید کے موقع پر خصوصی مٹھائیاں تیار کیا کرتے تھے  اور پھر ساتھ ہی ریڈیو پر اونچی آواز میں گانے لگائے رکھتے۔  ہم نے بھی حلوائی سے ایک آدھ لڈو، بوندی اور جلیبی سے منہ میٹھا کر لینا۔ دکانداروں نے دکانوں کے آگے سجاوٹ کیلیے چونے سے سفید لکیرں کھینچ دیا کرنی۔ میونسپلٹی والے بازار کی صفائی دل لگا کر کیا کرتے تھے اور بازار کی سڑک مٹی سے اور نالیاں بدبو سے پاک ہوا کرتی تھیں۔

پھر چھرے والی بندوق اور غبارے والے پٹھان کے پاس کھڑے ہو جانا۔ پہلے دوسروں کو نشانے لگاتے دیکھنا اور اپنی باری پر خود بھی نشانے لگانا۔ پٹھان کی کوشش ہوا کرنی کہ نشانے باز اس کے غبارے کی بجائے باریک سوئی کو نشانہ لگائے تا کہ اس کا نقصان کم سے کم ہو۔ اس نقصان کو کم کرنے کیلیے پٹھان نے بندوق کی نالی بھی ٹیڑھی کر رکھی ہوتی تھی۔ نشانہ وہی لگا پاتا جو اس ٹیڑھی نالی والی بندوق کو استعمال کرنے کا گر جان جاتا۔ ہمارا نشانہ کافی اچھا ہوتا تھا اور ہم کئی دفعہ دوستوں سے شرط بھی جیت لیا کرتے تھے۔

اس کے بعد ایک کھیل یا جوا کہہ لیں بازار میں کھیلا جاتا تھا۔ یہ بچوں کی حد تک مخصوص تھا۔ کسی صاحب نے پانی کی بالٹی بھرنی، اس کے درمیان میں ایک بوتل کا ڈھکن یا اس سے بڑی کھلے منہ والی ڈبیا رکھ دیا کرنی اور گاہکوں سے کہنا کہ اس میں سکہ پھینک کر دکھائیں۔ سکہ کمبخت ایسا ڈھیٹ ہوا کرنا کہ لہراتے لہراتے ڈبی سے دور جا گرنا۔ وہ اس وقت ایک آنے کے سکے کے بدلے روپیہ دیا کرتا تھا۔ اس طرح شام کو اس نے کافی سارے سکے اکٹھے کر لیا کرنے۔

پھر اخروٹ اور بلور یا بنٹے دوستوں کسیاتھ کھلنا شروع کر دیا کرنا۔ جو دوست ذرا بہادر ہوا کرتے تھے انہوں نے فلم دیکھنے چلے جانا اور ہم نے شام کو ان سے فلم کی کہانی سنا کرنا۔ اس وقت عام بچوں کو سنیما جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

اس دور میں اپنے مقامی رشتہ داروں یعنی نانی دادی، خالہ کے گھر رات کو چکر لگانا بہت ضروری خیال کیا جاتا تھا اور یہی عید کا آخری آئٹم ہوتا تھا۔ دن کے وقت ننھیال سے میٹھے کیساتھ اکثرعیدی بھی آیا کرنی۔

اس طرح ہماری عید گزرا کرنی اور رات کو تھک ٹوٹ کر سو جایا کرنا۔

اب تو وقت بدل چکا ہے۔ عید پڑھنے جانے سے پہلے بریڈ اور انڈے کا ناشتہ ملتا ہے۔ عید کی نماز پر کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں ہوتی۔ بس تکبیروں کے بعد نماز اور نماز کے بعد عربی اور انگریزی میں مختصر خطبہ۔ عید ملنے کے بعد کمیونٹی حال میں اکٹھے ہو کر کھانے پینے کیساتھ ساتھ دوست و احباب سے گپ سپ اور گھنٹے دو کے بعد گھر واپسی۔ بچوں میں عید بانٹنے کے بعد گھر میں گپ شپ لگانا اور دوپہر کو باہر ریسٹورنٹ میں کھان کھانے نکل جانا۔ رات کو کھانا گھر منگوانا اور کھا کر سو جانا۔

یورپ میں تو مسلمانوں کے محلے والا تصور ہی نہیں ہے۔ اس لیے اگر عید والے دن کوئی بھولے بھٹکے سے گھر آ بھی جائے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے مگر خواتین کے منہ بن جاتے ہیں کیونکہ انہیں مہمان نوازی کیلیے کچھ ناں کچھ پکانا پڑ جاتا ہے۔ عید پر بھی نوکری جان نہیں چھوڑتی۔ کئی لوگ تو عید بڑھنے کے بعد کام پر چلے جاتے ہیں۔ جو چھٹی کرتے ہیں ان کی سیل فون جان نہیں چھوڑتے۔ وقفےوقفے سے کوئی نہ کوئی ای میل یا فون کال آتی رہتی ہے۔ ایک آدھ تو کانفرنس کال میں بھی شمولیت اختیار کرنا پڑ جاتی ہے۔ اگر دفتر میں کوئی ایمرجنسی ہو جائے تو عید کا مزہ وہیں کرکرا ہو جاتا ہے۔

ہماری طرف سے سب کو عیدمبارک ہو۔