ایک ایسے شخص کو ہم جانتے ہیں جسے محلے والے لوگ ماما اشرف کے نام سے پکارتے ہیں۔

اشرف کا باپ مزدور پیشہ آدمی تھا جو دیہاڑي لگا کر بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ خدا نے اسے سات بیٹیوں کے بعد ایک بیٹے سے نوازا جس کا نام اس نے محمد اشرف رکھا۔ اشرف چونکہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اسلیے خوب نازوں میں پلا۔ اس لاڈ پیار کا یہ اثر ہوا کہ اس نے سکول کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر آوارہ گردی شروع کردی۔ کبھی وہ دوستوں کے ساتھ غائب ہوجاتا اور اس کا باپ اسے کئ کئ دن ڈھونڈتا رہتا۔ کبھی وہ باپ کی دکان سے  رقم چوری کرلیتا اور سگریٹوں کے دھوئیں میں اڑا دیتا۔

ایک دفعہ اس نے باپ کے پڑوسی دوکاندار سکھ کی دکان سے رقم چرا لی۔ اس دن سکھ نے اس کے والد سے کہا کہ تمہارا بیٹا نکما ہوگا اور اپنے رشتے داروں کو گن گن کر دھوکے دے گا۔

اس کی پہلی شادی شروع میں ہی ناکام ہوگئی اور ماں باپ نے دوسرے شادی کردی۔ دوسری بیوی خوبصورت گوری چٹی مگر اسی کی طرح انپڑھ تھی۔ اس کے ہاں اوپر تلے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ اتنی خوبصورت بیوی ہونے کے باوجود اشرف دنیا جہان کی حرام کاریاں کرتا رہا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے دوستوں کی بیویوں کو بھی نہ بخشا۔ ایک دن تو اس کی بیوی نے اسے ڈرائنگ روم میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ مگر وہ دونوں ڈھیٹ نکلے یعنی نہ اس کی بیوی نے اسے چھوڑا اور نہ ہی اس نے حرام کاری سے توبہ کی۔

پہلے پہل اشرف لکڑی کے کارخانے کا مالک تھا اور اس کا گزارہ اچھا ہورہا تھا۔ ایک دن اس کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اس نے دبئ جانے کا پروگرام بنا لیا۔ یہ وہ دور تھا جب بھٹو دور میں لوگ دبئی جانا شروع ہوئے۔ اشرف چونکہ مہا کا کام چور تھا اسلے زیادہ دیر تک دبئ نہ ٹک سکا اور جان پہچان والوں سے کافی ساری رقم ادھار پکڑ کر گھر بھاگ آیا۔

وہ دن اور آج کا دن اس نے ایک تیلا پکڑ کر بھی دوہرا نہیں کیا۔ اس نے اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بہلا پھسلا کر چاٹنا شروع کردیا۔ اشرف اعلیٰ درجے کا ڈرامہ باز ہے۔ اگر آپ اس سے ایک بار مل لیں تو تب تک آپ اس کی تعریفیں ہی کریں گے جب تک اس نے آپ پر ہاتھ صاف نہ کرلیا۔ وہ جذبات کا شہنشاہ ہے جو اپنے شکار کو بھانپ کر ایسا ڈرامہ کرتا ہے کہ شکار اس کی مکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے۔

اس کی بے غیرتی کی انتہا دیکھئے کہ وہ اپنی بہنوں کو بھی دھوکہ دینے سے باز نہ آیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنی چھوٹی بہن کے دیور کی زمین اپنے نام کرالی۔ ہوا اس طرح کہ اسے کسی طرح پتہ چلا کہ وہ زمین جس پر اس کی آرا مشین تھی بہن کے دیور کے چچا شریف کے نام تھی۔ شریف اس کے گھر کے سامنے رہتا تھا۔ جب شریف بیمار ہوکر چارپائی پر پڑگیا تو ایک دن اس نے اس کی چارپائی اٹھائی اور اسے کچہری لے جا کر زمین اپنے نام کروالی۔ اس زمین کا کیس دس سال تک چلتا رہا۔ اس دوران اس کے بہنوئی نے اس کی بہن کا جینا دو بھر کیے رکھا۔ دس سال بعد جب اشرف کو یقین ہوگیا کہ اب وہ مقدمہ ہار جائے گا تو اس نے بہن سے اندرون خانہ پچاس ہزار روپے لے کر زمین واپس کردی۔ اس ذلالت کی سزا آج تک اس کی بہن کو مل رہی ہے جو بڑھاپے میں اپنے خاوند کیساتھ رہتے ہوئے بھی اس سے الگ رہ رہی ہے۔

اسی طرح ایک دفعہ اشرف کے دوبھانجوں اور بہنوئی کو پولیس پکڑ کرلےگئ۔ اس کی بہن مدد کیلیے اس کے پاس آئی اور ایف آئی آر کٹنے سے پہلے پولیس کیساتھ مک مکا کرنے کیلیے اسے کہا۔ اشرف نے اسے کہا کہ وہ گھر جائے، وہ پیچھے پیچھے آتا ہے۔ وہ اس دن نہیں بلکہ اگلے دن مدد کیلیے پہنچا جب ایف آئی آر کٹ چکی تھی۔ اس دیر کے پیچھے اس کی یہ چال تھی کہ اس کا بہنوئی اور بھانجے حدود آرڈینینس میں جیل چلے جائیں اور وہ انہی کے مال پر ان کی تاریخيں بھی بھگتے اور اپنے گھر کا خرچ بھی چلائے۔ اس کی بہن اس کی چال سمجھ گئ اور اس کی بجائے غیروں کی مدد سے مقدمہ لڑنے لگی۔ ایک سال بعد جب بھانجوں اور بہنوئی کی ضمانتیں ہوئیں تو اس نے  پھر بھانجے کو پٹا لیا اور بھانجا پھر اپنے ماموں کیساتھ مل کر ان غیروں کی برائیاں کرنے لگا جنہوں نے ان کی ضمانت کروائی تھی۔ اسی بہن نے بعد میں اپنی بیٹی کی شادی اشرف کے بڑے بیٹے سے کردی جودبئ ہوتا تھا۔ شادی کو ابھی ایک سال بھی نہيں ہوا تھا کہ اشرف کی بہن کا انتقال ہوگیا۔ جب اشرف نے دیکھا کہ بہن کے انتقال کے بعد اس کی بہو کو اپنے میکے سے امداد ملنا بند ہوگئ ہے تو اس نے اسے طلاق دلوا دی۔

اس کی دوسری بہن کی بیٹی کا خاوند اس کو تنگ کررہا تھا اور طلاق نہیں دے رہا تھا۔ ایک دن بہن نے اپنے بھائی اور عزیز و اقارب کو اکٹھا کیا کہ وہ جوائی کے گھر جائیں اور اس سے مک مکا کرلیں۔ اشرف نے اسلیے جانے سے انکار کردیا کہ اس طرح اس کی عزت خراب ہوتی تھی۔ حالانکہ اس کے انکار کی وجہ صرف اس کیس کو لٹکا کر اپنی روزی روٹي کا بندوبست کرنا تھا۔ اسی لیے اس نے جانے والوں کو کہا کہ وہ وہاں پر مک مکا نہ کرکے آئیں بلکہ انہیں کہیں کہ وہ کچہري میں ہی طلاق کا فیصلہ کروائیں گے۔ وہ تو اس کا بھانجا اس کی چال کو سمجھ گیا اور وہیں پر طلاق کے کاغذات پر اپنے بہنوئی کے دستخط کرواکر اپنی بہن کو گھر لے آيا۔

اشرف کا کوئی بھی رشتہ دار اور دوست نہیں بچا ہوگا جس سے اس نے ادھار لے کر ہڑپ نہ کرلیا ہو۔ اشرف کا ایک بدمعاش کے ڈیرے پر بیٹھنا اٹھنا ہے اور جب بھی غریب اس سے اپنا ادھار مانگنے آتے ہیں وہ بدمعاش کی دھمکی دینا شروع کردیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف جب کوئی طاقتور اپنی رقم مانگنے اس کے گھر آیا تو اگر کوئی چارہ نہ چلا تو اپنی ماں کو اپنی بیٹیوں سے ادھار لینے کیلیے بھیج دیا۔

اشرف کا اپنی ماں کیساتھ بھی سلوک کوئی اچھا نہیں رہا۔ اس نے اپنی ماں کو بیٹیوں کے گھروں میں اپنی ناک اونچی رکھنے کیلیے رہنے نہ دیا مگر گھر پر اپنی ماں کی خدمت بھی نہ کی۔ حتیٰ کہ کئی دفعہ اس نے ماں کو مارا بھی۔ اس کی ماں کہا کرتی تھی کہ اشرف تو میرے ساتھ زیادتی کرکے کچھ نہیں کمائے گا۔ جب اس کی ماں فوت ہوچکی ہے تو اب وہ ہر ایک کو تبلیغ کرتا پھرتا ہے کہ سب کو اپنے ماں باپ کی خدمت کرنی چاہیے۔

خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ اب اشرف اپنے کیے کی سزا بھگتنے لگا ہے۔ اس کی اولاد بھی اسے اسی طرح دھتکار رہی ہے جس طرح وہ اپنے ماں باپ کو دھتکارا کرتا تھا۔

اشرف کی ساری زندگی کلف والی شلوار قمیض پہنے لوگوں سے ادھار مانگتے گزری ہے۔ یہ پہلا شخص ہم نے زندگی میں دیکھا ہے جس نے عرصہ تیس سال سے کوئی کام نہیں کیا اور اپنی اولاد کو بھی پال لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس کی اولاد ہی اس کے خلاف ہوچکی ہے۔

کیا آپ نے بھی ایسا آدمی اپنی زندگی میں دیکھا ہے جو اپنوں ہی کو چکر دے دے کر ساری زندگی زندہ رہا ہو اور اپنے  ہاتھوں سے بھی کوئی کام نہ کیا ہو؟ اشرف کی بہن اکثر اپنی اولاد کو ان کے مامے اشرف کے بارے میں سکھ کی پشین گوئی سناتی رہتی ہے جو حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔