سپریم کورٹ نے چھٹی پر بھیجے گئے چیف جسٹس آف پاکستان کا کیس فل بینچ میں سننا شروع کردیا ہے۔ زبردستی چھٹي پر چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ درخواست دی ہے کہ جنرل صدر مشرف نے انہیں غیرقانونی طور پر چھٹی پر بھیجا۔ آج سے چیف جسٹس کے وکلا نے اپنے دلائل دینا شروع کردیے ہیں۔ یہ کیس سپریم کورٹ کے بقول متواتر چلے گا اور اس کا مطلب ہے کہ جلد ہی اس کا فیصلہ بھی سنا دیا جائے گا۔

اعلی عدالتوں کی سابقہ تاریخ اور حالیہ واقعات کو اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ ایک کڑے امتحان سے گزر رہی ہے۔ سپریم کی آج تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ ججوں نے اب تک حکومت کی بات مانی ہے اور اکثر فیصلے فوجی حکومتوں کے حق میں دے کر ان کی حکومتوں کو جائز قرار دیا ہے۔ ان فیصلوں سے پہلے فوجی حکومتوں نے فیصلے اپنے حق میں کرانے کیلیے ججوں سے خصوصی حلف لیے اور جنہوں نے حلف اٹھانے سے انکار کردیا انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ بعض اوقات تو ججوں سے خصوصی حلف لینےسے پہلے ہی بعض ناپسندیدہ ججوں کو حلف کیلیے بلایا ہی نہیں گیا اور انہیں سیدھا گھر بھیج دیا گیا تاکہ وہ اکھڑ جج حکومت کے خلاف فیصلے نہ دے سکیں۔ موجودہ ججوں نے بھی موجودہ فوجی حکومت کے ایل ایف او کے تحت حلف اٹھایا ہوا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا پاکستان کی تاریخ میں انوکھا رویہ ہے جو ایل ایف او کے تحت حلف کے باوجود حکومت کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں اور اسی حکومت کے مقابل آجاتے ہیں جس کا انہوں نے خصوصی حلف اٹھایا ہوا ہے۔

ہماری عدالتوں کی بے بسی موجودہ دو واقعات سے بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ ایک چیف جسٹس کا مانو بھیل کے مقدمے کا سوموٹو ایکشن لے کر اب تک اس کے خاندان والوں کو باگزار نہ کراسکنا۔ اسی کیس کی انکوائری پر مامور  ڈی آئی جی سلیم اللہ کو پہلے ٹرانسفر کردینا اور بعد میں معطل کردینا۔ جب سپریم کورٹ نے انہیں دوبارہ اسی کیس کی انکوائری کیلیے بحال کرنے کے آرڈر دیے تو ان احکامات کی تعمیل نہ کرنا۔ ڈی آئی جی اپنی معطلی کے بعد گرفتاری کے ڈر سے روپوش ہوگئے جو ابھی ایک روز قبل گرفتار ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کو چھٹی پر بھیج دیا گیا اور اس طرح مانو بھیل کا کیس سپریم کورٹ کی مداخلف کے باوجود درمیان میں لٹکا ہوا ہے۔

کراچی کے موجودہ فسادات میں چیف جسٹس ہائی کورٹ سندھ کا آئی جی کو بلا کر شارع فیصل اور ہائی کورٹ کے ارد گرد سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دینا اور آئی جی کا حکم مانے سے انکار کردینا۔

ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اب بھی اعلی عدالتوں کے جج صاحبان بااختیار نہیں ہیں اور وہ حکومت کے آگے بے بس ہیں۔

اسی بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ فل کورٹ کو ایک ایسا کیس سونپا گیا ہے جس کا جو بھی فیصلہ ہوگا ججوں کو مشکلات کا شکار کردے گا۔ اگر فل کورٹ بینچ حکومت کیخلاف فیصلہ دے دیتا ہے تو پھر یہ جج اپنی باقی نوکری کو خطرے ميں ڈال دیں گے۔ اگر فل کورٹ حکومت کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہے تو پھر عوامی عتاب سے وہ بچ نہیں سکیں گے۔ ہوسکتا ہے حکومت ان کو عوامی غصے سے بچانے کا عارضی بندوبست مہیا کردے مگر جب حکومت ہی عوامی غضب کا شکار ہوگئ تو پھر وہ ججوں کی کیسے حفاظت کرپائے گی۔

ججوں کیلیے اپنے بچاؤ کا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے بقول قائد اعظم ایمان، اتحاد اور تنظیم کا۔ اگر اعلی عدالتوں کے سارے ججوں نے تنظیم کیساتھ آپس میں اتحاد قائم کرلیا اور اپنے ایمان کو ڈولنے نہ دیا تو پھر فوجی حکومت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ اب تک اعلی عدالتیں حکومت کے نیچے اسی وجہ سے لگی رہی ہیں کہ ان میں اتحاد کا فقدان رہا ہے۔ ہر جج “سب سے پہلے پاکستان” کی طرح “سب سے پہلے میں” کے چکر میں اپنے ہی ساتھیوں کی قربانیوں پر کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتا رہا ہے۔ اب وقت ہے ان کے ایمان اور پاکستان کیساتھی خلوص کے امتحان کا۔ اگر اس دفعہ جج اس امتحان میں سرخرو ہوگئے تو وہ کروڑوں غریبوں اور لاچاروں کی دعاؤں کے صدقے قوم کے سامنےضرور سرخرو ہوں گے۔

یہ بڑے بڑے لوگوں کا قول ہے کہ اگر انصاف معاشرے میں قائم رہے تو وہ معاشرہ کبھی تباہ نہیں ہوتا۔ یہی ہماری بھی آرزو ہے کہ پاکستان میں ایک دفعہ انصاف سارے عہدوں پر حاوی ہوجائے پھر دیکھیے گا پولیس کسی طرح سیدھی ہوتی ہے اور کرپشن کس طرح ختم ہوتی ہے۔ فوج کس طرح بیرکوں میں جاتی ہے اور حکومتی غلط بیانیوں کو کس طرح بریک لگتی ہے۔

 آئیں مل کر دعا کریں کہ خدا ہمارے فل کورٹ کے جج صاحبان کے ضمیر کو زندہ رکھے تاکہ وہ حکومتی دباؤ اور وردی کے خوف کو پس پشت ڈال کر انصاف کا بول بالا کرسکیں۔ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہم یہاں بیٹھے سوچ رہے ہیں۔ اس کام کیلیے بہت بڑا جگر اور بہت بڑی قربانی درکار ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں ابھی بھی خدشہ ہے کہ عوامی غضب پر حکومتی دباؤ کو اولیت دی جاسکتی ہے کیونکہ وقتی طور پر اسی میں وہ اپنا فائدہ دیکھیں گے۔ لیکن ہم اپنے مستقبل سے مایوس نہیں ہیں اور خدشات کے باوجود اچھے کی ہی توقع کرتے ہیں۔