ابھی میمو گیٹ کی گرمی کم نہیں ہوئی تھی کہ کل نیٹو کے حملے میں 2 افسروں سمیت 26 پاکستانی فوجی شہید ہو گئے۔ اس کے بعد وزیراعظم نے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس بلایا اور نیٹو کی سپلائی لائن بند کر دی۔ اس کیساتھ ہی امریکہ کو شمسی ایئربیس پندرہ دن کے اندر خالی کرنے کا 0حکم دے دیا۔ یہ وہی شمسی ایئربیس ہے جس کی امریکہ حوالگی سے حکومت انکار کرتی رہی ہے۔ کہتے ہیں اسی ایئربیس سے ڈرون ہوائی جہاز اڑائے جاتے رہے ہیں۔

حیرانی تو اس بات پر ہے کہ نیٹو جیسی ترقی یافتہ فوج ڈرون حملے سے پہلے گاڑی میں بیٹھے دہشت گرد تک کو پہچان جاتی ہے وہ ہماری فوجی چوکیاں اور ان میں بیٹھے درجنوں نوجوانوں کو نہیں پہچان سکی۔ یہ حادثہ نیٹو کا پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ کیا جاتا اگر نیٹو والے حملہ کرنے سے پہلے پاکستان سے ان چوکیوں کی تصدیق کر لیتے۔

امریکی سفیر کو وزیراعظم ہاوس بلا کر احتجاج درج کرایا گیا اور امریکی سفیر نے اس حادثے پر شہید فوجیوں کے لواحقین کیساتھ اظہار ہمدردی کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سفارتی جنگ میں کون جیتتا ہے؟ نیٹو یا پاکستان۔

عمران خان نے بھی اپنے کل کے جلسے میں اس ایشو کو اچھالا۔ حالات تو یہی بتاتے ہیں کہ عوامی پریشر کی وجہ سے پاکستان کو یہ اقدامات اٹھانے پڑے اور عوامی غصے کی گرد بیٹھنے کے بعد حالات دوبارہ معمول پر آ جائیں گے۔ مگر فی الحال تو اسلام آباد چند روز تک سفارتی سرگرمیوں کا مرکز رہے گا اور حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔