پیمرا کو مزید اختیارات دینے کا آج جب جنرل صدر مشرف نے ایک اور آرڈینینس جاری کیا تو ان اختیارات کے ناجائز استعمال نے ایک بار پھر یہ باور کرا دیا کہ موجودہ اسمبلی ربر سٹیمپ ہے۔ وہ اسلیے کہ موجودہ قومی اسمبلی نے اتنے بل پاس نہیں کئے جتنے آرڈینینس منظور کئے ہیں۔ کہتے ہیں موجودہ حکومت کے بہت سارے کارناموں میں سب سے زیادہ آرڈنینس جاری کرنے کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔ ہمارا قانون اس بات کی ضرور اجازت دیتا ہے کہ جب اسمبلی کا سیشن نہ ہورہا ہو تو صدر آرڈینینس جاری کرسکتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے ہم مجموعی طور پر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، ابھی ۱۲ مئی کے کراچی کے فسادات کے بعد وکلا نے پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی تو تھانیدار نے انکار کردیا۔ جب کورٹ نے تھانیدار کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تو اس نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مقدمہ درج کرنے کے بعد اسے ناقابل عمل کہ کر داخل دفتر کردیا۔ یہ تو بھلا ہو وکیلوں کی موجودہ تحریک کا جس کے دباؤ کی وجہ سے کورٹ نے تھانیدار کو مقدمہ کھول کر دوبارہ تفتیش کا آرڈر دے دیا۔

جب ملک پرمطلق العنان حکمران مسلط ہو تو وہ بھی اسی طرح اپنے جائز  اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے سے نہیں ڈرتا کیونکہ اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اب اگر پیمرا کے قوانین میں ترمیم کا آرڈینینس جاری نہ کیا جاتا تو کوئی قیامت نہ آجاتی۔ اسمبلی کے اگلے سیشن کا انتظار کیا جاسکتا تھا اور یہ بل اسمبلی میں پیش کیا جسکتا تھا۔ حکومت کو اس بل کو پاس کرانے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آتی، سوائے حزب اختلاف کے شدید احتجاج اور ترمیمات کی سفارشات کے۔  اسمبلی بنی ہی اسی لیے ہے کہ ممبران مل کر قانون بنائیں تاکہ ایک شخص عوام کے سیاہ وسفید کا مالک نہ بن جائے۔ ویسے بھی ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں جو ایک کے مقابلے میں بہت سمجھدار اور عقلمند ہوتے ہیں۔  لیکن جب آدمی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے تو وہ کسی اور کی مداخلت اور تجاویز کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہے۔ حیرانی ان ممبران پر ہوتی ہے جو اپنے اختیارات کا خون ہوتے دیکھتے رہتے ہیں اور آنکھیں بند  کر کے آرڈینینس منظور کرتے جاتے ہیں۔ کسی میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ آرڈینینس کے خلاف آواز بلند کرسکے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہر آدمی کوسب سے پہلے اس کی کرسی عزیز ہوتی ہے نہ کہ ملکی مفاد۔

روشن خیالی اور اعتدال پسندی میں تو ہم امریکہ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ قانون سازی میں بھی اس کی تقلید کرلیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ میں قانون پاس ہونے میں مہینے نہیں بلکہ کئی سال لگ جاتے ہیں۔ مگر جو بھی قانون پاس ہوتا ہے وہ سینکڑوں دماغوں کی اختراع ہوتا ہے کسی ایک آدمی کی ایجاد نہیں۔ اگر امریکہ میں بھی اسی طرح آرڈینینس جاری کرنے کا رواج ہوتا تو صدر بش کے دنیا پر جائز ناجائز قبضہ کرنے کے ارادے کے آگے بند باندھنا مشکل ہوجاتا۔ یہ امریکہ کا جمہوری نظام ہی ہے جو اب صدر بش کو عراق کی پالسی بدلنے پر مجبور کررہاہے۔ ادھر ہم ہیں کہ جو دل میں آتا ہے کرگزرتے ہیں اور مشورے تب کرتے ہیں جب پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اصل جمہوریت اسی دن ہوگی جس دن صدارتی آرڈینینس کے آگے چٹان کی طرح کھڑی ہونے والی اسمبلی موجود ہوگی۔

تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ جب حکومت کے آخری دن آتے ہیں تو پھر اسی طرح کے آرڈینینس جاری ہونے لگتےہیں۔ اختیارات کی اس اندھی طاقت میں حکمران عوامی غیض و غضب کو نہیں دیکھ پاتے اور وہ ایک دن اس عوامی طوفان میں تنکے کی طرح بہ جاتے ہیں۔