وزیر اعظم چونکہ خود وزیر خزانہ ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے انہوں نے اپنا بہت سا کام اپنے مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کو سونپ رکھا ہے جن کی معاونت ظاہر ہے سیکریٹری خزانہ بھی کرتے ہوں گے۔ وزارت خزانہ ایک فل ٹائم جاب ہے جو وزیر اعظم جیسے مصروف آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اور ہمارا نہیں خیال کہ وزیراعظم اپنے مصروف وقت سے وزارت خزانہ کیلیے وقت بھی نکال سکتے ہوں گے، ہاں وزارت خزانہ اپنے پاس رکھنے کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ انہیں اپنے آقاؤں کو نوازنے کیلیے کسی دوسرے شخص سے درخواست نہیں کرنی پڑتی ہوگی۔ مگر دوسری طرف وزارت خزانہ اپنے پاس رکھنے سے جو ملک کا نقصان ہورہا ہے اس  کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔

پچھلے سال کی اچھی خبریں یہ ہیں کہ پاکستان میں گندم کی وافر مقدار پیدا ہوئی جس کی وجہ کافی سارا زرمبادلہ دیہی علاقوں کی طرف منتقل ہوا۔ بقول مشیر خزانہ پاکستان کی افراط زر کی شرح زیادہ نہیں بڑھی اور صنعتی، زرعی اور سروس سیکٹر کی ترقی کی رفتار بھی معقول رہی۔ گوکہ صنعتی ترقی کی رفتار پچھلے سال سے کم رہی مگر پھر بھی آٹھ اعشاریہ پچھتر فیصد بری نہیں ہے۔

پاکستان میں بیروزگاری کی شرح چھ اعشاریہ دو فیصد اور غربت کی شرح تیس اعشاریہ نو فیصد تھی۔ اگر بیروزگاری کی شرح پر غور کیا جائے تو یہ بڑےبڑے صنعتی ملکوں کے برابر یا ان سے بھی کم ہے مگر دوسری طرف اگر غربت کی شرح دیکھی جائے تو وہ بہت زیادہ ہے۔ پتہ نہیں بیروزگاری کی اتنی کم شرح ہونے کے باوجود ملک میں اتنی غربت کیوں رہی۔ لگتا ہے ہمارے ہاں بیروزگاری کی شرح میں صرف مردوں کو شامل کیا گیا ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ اگر بیروزگاری جانچنے کیلیے صرف مردوں کو گنا گیا ہے تو پھر جو ایک دو فیصد عورتیں کام کررہی ہیں ان کو کس کھاتے میں ڈالا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں بیروزگاری کی شرح جاننے کیلیے اگر مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل کیا جائے تو بیروزگاری پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہوگی۔   غربت کی شرح جو عام اندازوں کے مقابلے میں حکومت نے بہت کم بتائی ہے مگر اس کے باوجود حکومت کی توجہ چاہتی ہے۔

موجودہ حکومت نو گیارہ کے فوائد کی وجہ سے کافی عرصے سے کشکول توڑنے کا دعوی کرتی آرہی ہے مگر پچھلے سال ملکی قرضوں میں چار اعشاریہ تین فیصد اضافے کا اقرار اب خود کررہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے کشکول توڑا نہیں ہاں اس کا سائز کم کردیا ہے۔ 

ملکی برآمدات ميں تو اضافہ تین اعشارہ چار فیصد اور درآمدات میں آٹھ اعشاریہ نو فیصد ہوا ہے۔ اس طرح تجارتی خسارہ گیارہ ارب ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے۔ کہتے ہیں کہ درآمدات میں پاکستانی تاجروں نے بہت ساری جدید مشینری منگوائی ہے اور اس جدید مشینری کی وجہ سے پاکستان کی صنعت عالمی لیول پر مقابلے کے قابل ہوسکے گی۔ لیکن اس تجارتی خسارے کا پاکستانی معیشیت پر اچھا اثر نہیں پڑ رہا۔

حکومت کو اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلیے پچھلے سال دو سو ارب روپے کے قرضے حاصل کرنے پڑے جبکہ اس سے پچھلے والے سال میں بجٹ خسارہ کم کرنے کیلیے حکومت کو تہتر ارب چالیس کروڑ روپے کے قرضے لینے پڑے تھے۔ اگر قرضوں کی یہی صورتحال رہی تو پھر جلد ہی ہمیں اپنے کشکول کا سائز بڑا کرنا پڑے گا۔ 

یہ بجٹ سے پہلے کی صورتحال ہے اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر اس بجٹ میں خسارہ کم کرنے کیلیے مزید ٹیکس نہ لگائے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی تنخواہیں بھی بڑھائی گئیں تو پھر یہ سیاسی بجٹ ہوگا جو عموماً حکومتیں الیکشن کے سال میں پیش کیا کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسے ہم نامکمل  بجٹ بھی کہ سکتے ہیں کیونکہ الیکشن کے بعد ایک منی بجٹ آئے گی جس میں دی گئ رعایات کو برابر کرنے  اور تجارتی خسارہ کم کرنے کیلیے بہت سارے ٹیکس لگادیے جائیں گے۔

ہم نے ہمیشہ درآمدات پر ڈیوٹیاں ختم کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور سمجھتے ہیں کہ درآمدات پر ڈیوٹیاں ختم یا کم کرکے ہم اپنی لوکل صنعت کو تباہ کررہے ہیں۔ اگر حکومت لوکل صنعت کو عالمی منڈی سے تحفظ فراہم نہیں کرے گی تو پھر کون کرے گا۔ اب سنا ہے کہ حکومت اس بجٹ میں آٹھ سو سی سی کی کاروں کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کررہی ہے۔  اس طرح پاکستان میں بننے والی کاروں کی صنعت کی ترقی پر ضرب کاری لگے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر پاکستان میں چھوٹی کاروں کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے تو حکومت موجودہ فیکٹریوں کی پیداوار بڑھاتی یا پھر نئ فیکٹریاں لگاتی تاکہ بیروزگاری کی شرح میں کمی ہوتی۔ مزید کاریں سستی قیمتوں پر درآمد کرکے ہم اپنے آقاؤں کی صنعت کو تو تحفظ فراہم کریں گے مگر اپنے ملک کی صنعت کا بیڑہ غرق کرلیں گے جو پہلے ہی عالمی منڈیوں کا مقابلہ کرنے سے محروم ہے۔