ہفتہ کے دن خبروں میں بتایا گیا کہ ایک وزیر مملکت ایک خاتون کو بے ہوشی کی حالت میں پمز ہسپتال لاۓ اور اسے وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ پاکستانی کینیڈین چالیس سالہ کفیلہ قریشی تھی جس کا بعد میں پتہ چلا کہ وہ وزیر مملکت انجینئر شاہد جمیل قریشی کے ساتھ رہتی تھی۔kafila_jamil_203.jpg

اب دونوں طرف کے بیانات سے کچھ اسطرح کی کہانی بنتی ہے۔ کفیلہ قریشی کینیڈا میں اپنے شوہر کیساتھ رہائش پزیر تھی اور وہ اچانک اپنے شوہر کیساتھ ناچاکی کے بعد پاکستان منتقل ہوگئ۔ بقول وزیر مملکت جمیل قریشی یہ خاتون اپنے شوہر کی پانچ لاکھ ڈالر کی مقروض تھی اور ان کا شوہر قرض کا مطالبہ کررہا تھا۔ وزیر صاحب ان خاتون کی حوصلہ جوئی کیلیے اپنا پارلیمنٹ لاجز کا اپارٹمنت چھوڑ کر اس کیساتھ منتقل ہوگئے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر یہ بات جانتے تھے کہ خاتون اپنے شوہر کیساتھ جھگڑے اور قرض کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار تھی۔ دوسری طرف کفیلہ قریشي کے شوہر میاں سلمان قیصر نے کینیڈین کونسلیٹ میں اپنی بیوي کے حبس بیجا کی درخواست دی ہوئی تھی اور وہ اپنی بیوی کی بازیابی کیلیے انٹر پول سے مدد مانگ رہا تھا۔

آج یہ معلوم ہوا ہے کہ مرحومہ کفیلہ قریشی کے بھائی نے وزیر مملکت انجینئر شاہد جمیل قریشی کیخلاف حبس بیجا کا مقدمہ درج کرا دیا ہے اور کینیڈین ایمبیسی بھی قتل کی  تفتیش کی نگرانی کررہی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ مقتولہ کے وارثوں نے وزیر مملکت کیخلاف قتل کی بجائے حبس بیجا کا مقدمہ درج کرایا ہے۔

اس کہانی میں کچھ سوال ہیں جو وزیر مملکت کے کردار کو مشکوک بناتے ہیں۔ مثلا وزیرمملکت ایک خاتون کیساتھ بناں شادی کئے کیوں رہ رہے تھے؟ وہ خاتون کو پمز میں تنہا چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ ڈی ہائیڈریشن سے موت ایک دن میں نہیں ہوسکتی بلکہ دوچار دن لگ جاتے ہیں۔ اگر خاتون کو ڈی ہائیڈریشن تھی تو پھر اس کا علاج کیوں نہیں کرایا گیا؟ اگر خاتون مقروض تھی تو پھر اس کے رہن سہن کا خرچ کون برداشت کر رہا تھا؟ وزیر مملکت کی اس خاتون کیساتھ دوستی کس طرح ہوئی؟ چند ماہ سے وزیر مملکت اس خاتون کیساتھ  کیوں رہ رہے تھے؟ خاتون کے شوہر نے انٹرپول میں وزیر مملکت کیخلاف حبس بیجا کی شکائت درج کیوں کرائی؟

ان سوالوں کے جوابات تو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور پولیس کی تفتیش ہی ڈھونڈے گی اور وہ بھی تبھی جب حکومتی دباؤ آڑے نہ آیا اور کینیڈین ایمبیسی نے انہیں ڈنڈا دیے رکھا۔ ظاہری حالات تو یہی بتاتے ہیں کہ خاتون کی موت وزیرمملکت کے کسی فعل کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اب وہ کونسا فعل ہے یہ پولیس کی آزادانہ تفتیش کے سوا کوئی نہیں جان پائے گا۔

بارہ جون کی خبروں سے مزید پتہ چلا ہے کہ جب کفیلہ صدیقی کو ہسپتال لایا گیا تو وہ پہلے ہی فوت ہوچکی تھی اور اس کے پاس سے شراب کی بو آرہی تھی۔ بقول اس کے رومیٹ وزیر مملکت وہ اسے تین سال پہلے ٹورانٹو میں ملے تھے اور پھر اس کے بعد ان کی دوستی ہوگئ اور کفیلہ صدیقی نے پاکستان آکر وزیر مملکت کیساتھ ملکر ایک کمپنی کھول لی جسے وزیر موصوف کی سفارش پر مواصلات کے کافی سارے کنٹریکٹ ملے۔ ہمارا قیاس یہ ہے کہ کفیلہ صدیقی لالچ اور عشق کے چکر میں وزیر موصوف کی باتوں میں آکر اپنے شوہر کی بہت ساری رقم لے کر پاکستان آگئی۔ جب عشق کا بھوت اترا ہوگا تو پھر عاشق معشوق میں ان بن شروع ہوگئی ہوگی۔ اسی ان بن کے نتیجے میں یا تو معشوق نے عاشقہ کو قتل کردیا یا عاشقہ نے دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کرلی۔

جس شک کا ہم نے پہلے اظہار کیا تھا خبریں اس کی تصدیق کررہی ہیں یعنی وزیر موصوف تفتیش پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں اور انہوں نے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں بھی تبدیلی کیلیے کوششیں شروع کردی ہیں۔

اگر یہی قتل کسی غریب کے گھر ہوا ہوتا تو قاتل اپنے اہل خانہ سمیت حوالات کی ہوا کھا رہا ہوتا۔ ملاحظہ فرمایے پولیس کی پھرتی، اصل ملزم سے تفتیش کی بجائے اس کے پی ایس او اور خانسامے کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ملزم چونکہ وزیر مملکت ہے اسلیے اسے ابھی گرفتار تک نہیں کیا گیا بلکہ ملزم نے اپنی طاقت دکھانے کیلیے اپنے باس یعنی وزیراعظم سے ملاقات بھی کرلی ہے اور اس کے باس نے اس سے استعفیٰ لینے کی بجائے اسے ڈٹ جانے کا مشورہ دیا ہے۔  واہ رہے طاقت تیری شان، جس پر تو نہیں ہوئی پشیمان

تازہ اطلاع یہ ہے کہ وزیر اعظم نے جمیل قریشی کو اپنے چیمبر میں بلا کر استعفیٰ لے لیا ہے۔

تیرہ جون کی خبروں کیمطابق سابق وزیر مملکت نے بتایا کہ وہ کفیلہ قریشی کیساتھ بہن بھائی کی طرح رہ رہے تھے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر انہوں نے اپنی بہن کا خیال کیوں نہیں رکھا اور وہ اسے ہسپتال مردہ چھوڑ کر چلے کیوں گئے۔ انہوں نے اپنی بہن کو شراب پینے سے منع کیوں نہ کیا۔ ہمارے خیال میں قریشی صاحب نے بہن بھائی کا بہانہ صرف بدنامی سے بچنے کیلیے گھڑا ہے اور اس طرح ایک پاک رشتے کی تذلیل کی ہے۔

جیو نے یہ بھی بتایا ہے کہ پہلے تو پولیس کو گھر میں گھسنے نہیں دیا گیا اور جب کورٹ کے آرڈر آئے تو پولیس نے گھر کی تلاشی لی۔ اس دوران کفیلہ کی موت کے تمام شواہد مٹا دیے گۓ اور جب نامہ نگاروں کو گھر کے معائنے کیلیے بلایا گیا تو گھر کی مکمل  صفائی کی جا چکی تھی اور جس کمرے میں کفیلہ کی موت ہوئی وہ دوبارہ سے سیٹ کردیا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کفیلہ کی موت طبعی ہو یا اس نے خود کشی کی ہو مگر اس کی موت کے شواہد مٹانے کی کیا ضرورت تھی؟ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔

یہ بھی سنا ہے کہ جب وزیر اعظم نے سابق وزیر مملکت کو فون کیا تو وہ اسلام آباد سے لاہور جارہے تھے۔ وزیر اعظم نے انہیں واپس بلایا، ان سے استعفیٰ لیا اور پولیس سے مکمل تعاون کی ہدایت کی۔

امید یہی  کی جارہی ہے کہ جس طرح کینیڈین حکومت اپنے شہری کی موت کا سبب چاننے کیلیے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ چکی ہے، سابق وزیر مملکت کی جان آسانی سے نہیں چھوٹے گی۔