جہاں مسلمان ذات پات، فرقہ بندی، امیری غریبی، علاقائی عصبیت وغیرہ میں پہلے ہی تقسیم ہیں وہاں عید کا چاند دیکھنے پر بھی تقسیم ہو چکے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ننگی آنکھ سے عید کا چاند دیکھا جانا ضروری ہے، کوئی کہتا ہے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے چاند کے دیکھے جانے کا تعین ہونا چاہیے۔ سعودی عرب والے چاند کے کیلنڈر پر تہوار مناتے ہیں اور ہم مسلمان انہی کے کیلنڈر کے مطابق حج کرتے ہیں مگر جب عیدیں منانے کا وقت آتا ہے تو پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت سعودیوں کی بات نہیں مانتی اور چاند دیکھے جانے پر اسرار کرتی ہے۔
ہماری رویت ہلال کمیٹی چاند کے کیلنڈر کو نہیں مانتی مگر وہ ننگی آنکھ کی بجائے دور بین سے چاند دیکھتی ہے۔ دوربین سے چاند دیکھنے کیلیے اس کے استعمال کا سب سے زیادہ اہل سائنسدان ہے ناں کہ مولانا۔
اسی طرح کچھ لوگ چند شہادتوں کی بنا پر عید کا اعلان کر دیتے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایسا کونسا چاند ہے جو صرف چند آدمیوں کو نظر آتا ہے مگر اکثریت کو نظر نہیں آتا۔ اگر دوربین چاند دیکھنے کیلیے استعمال کی جا سکتی ہے تو پھر خلائی سیارہ یا انتہائی جدید دوربین کیوں استعمال نہیں کی جا سکتی۔ اگر شمسی کیلنڈر سے نمازوں کے اوقات طے ہو سکتے ہیں تو پھر قمری کیلنڈر سے عیدین کے کیوں نہیں۔
ہم شروع سے اس بات کے حامی رہے ہیں کہ شمسی کیلنڈر کی طرح قمری کیلنڈر بھی بنا لینا چاہیے۔ اس کے کئی فوائد ہیں۔ قوم آنے والے تہواروں سے آگاہ ہو گی اور متحد ہو گی۔ جدید سائنسی دور میں ہمیں مسلم امہ کے اتحاد کیلیے قربانی دینی پڑے گی اور قمری کیلنڈر پر متفق ہونا پڑے گا۔