کراچی کی بہت بڑی گارمنٹ فیکڑی میں آگ سے اب تک 212 افراد شہید ہو چکے ہیں اور ابھی تک آگ بحھانے والے عملے کی اوپر والی منزل اور بیسمنٹ تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔ اس طرح اندیشہ ہے کہ شہیدوں کی تعدار میں مزید اضافہ ہو گا۔
حکومت کہتی ہے کہ فیکڑی مالکان کو باہر جانے سے روک دیا گیا ہے اور انہیں ہر شہید کے لواحقین کو پانچ لاکھ اور ہر زخمی کو دو لاکھ روپے دینے ہوں گے۔ جس طرح کی تباہی ہوئی ہے ایسا بیان انتہائی احمقانہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت فیکڑی کی آگ ٹھنڈی ہونے سے پہلے اس تباہی کے ذمہ داروں کیخلاف دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلاتی اور مجرموں کو سرعام پھانسی دیتی۔
اس جرم کے ذمہ دار فیکڑی مالکان بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے فیکڑی میں نہ تو آگ بحھانے کے آلات رکھے ہوئے تھے اور نہ ہی ایمرجنسی دروازوں کا بندوبست کیا تھا۔ اس تباہی کے ذمہ دار سرکاری محکمے بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے رشوت لے کر فیکڑی کی کمزوریوں پر پردہ ڈالا ہو گا۔ اس تباہی کے ذمہ دار حکمران بھی ہو سکتے ہیں جو عوام کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر رہے۔ وزیرداخلہ کو تو ابھی سے استعفی دے دینا چاہیے۔
مگر کچھ نہیں ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں کیلیے عوام صرف وہ جنس ہے جو صرف ووٹ دیتی ہے اور وہ بھی بناں سوچے سمجھے۔ اس کے علاوہ اگر سیلاب یا زلزلے میں لاکھوں لوگ بھی شہید ہو جائیں تب بھی حکومت کو اپنی غفلت پر شرم نہیں آئے گی۔