ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری پولیس کتنی مستعد اور ہنرمند ہے اور اس کو کتنی تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کس طرح پولیس افسر اپنے جوانوں سے گدھوں کی طرح کام لیتے ہیں۔ ایک پولیس والا چوبیس چوبیس گھنٹے بغیر اوور ٹائم کے ڈیوٹی دیتا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میںpoliceagitation3.jpg اتنی کم تنخواہ کیساتھ ساتھ اگر سپاہیوں کی دیکھ بھال بھی نہ کی جائے تو وہی ہوتا ہے جو اسلام آباد میں آج ہوا۔ کئی ہفتوں سے اسلام آباد کی پولیس لائن کے کوارٹروں کی مخدوش حالت میں رہتے ہوئے آج تب سپاہیوں کے صبر کا پیمانہ لبریزہوگیا جب ان کے افسروں کی نااہلی کی وجہ سے ان کا ایک ساتھی وفات پاگیا۔ سپاہیوں کے مطابق امام بخش کئی روز سے بیمار تھا، نہ اس کا علاج کرایا جارہا تھا اور نہ اسے چھٹی دی جارہی تھی۔

 پولیس والوں کو رہائش اور کھانے کی شکایات تو شروع سے تھیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ جانوروں والی زندگی جی جی کر اب ان کو موت نظر آنے لگی ہیں تو انہوں نے عام پبلک کی طرح سڑکیں بلاک کردیں اور پانچ گھنٹے تک اسلام آباد کے پوش علاقے میں احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ حتیٰ کہ وہ گرمی کے مارے اتنے تنگ آئے ہوئے تھی کہ انہوں نے احتجاج سے روکنے والے افسر کی بھی پٹائی کردی۔ مزید شرمندگی سے بچنے کیلیے ڈی آئی جی نے جوانوں کے ایس پی کو معطل کرتے ہوئے سپاہیوں کو دس روز کی چھٹی پر بھیج دیا اور ان کو اپنے اپنے علاقوں میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔ احتجاج کو روکنے کا ڈی آئی جی کا طریقہ دیکھ کر ہمیں اپنے کالج و یونیورسٹی کا زمانہ یاد آگیا۔ جب بھی حکومت کیخلاف طلبا منظم ہوتے اور احتجاج کیلیے سڑکوں پر نکلتے حکومت کالج و یونیورسٹیاں بند کردیتی اور ہوسٹل خالی کروالیتی۔ یہی آزمودہ طریقہ چیف جسٹس کے جاری کرائسسز کے دوران ان گرما کی چھٹیوں میں بھی اپنایا گیا ہے۔

ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھے جب احتجاج کو روکنے اور مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے والے خود احتجاج کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور مشتعل ہوکر سڑکیں بلاک کردیں گے۔ واہ ری انتظامیہ تری پھرتیاں۔

حکومت کو چاہیے کہ اس واقعے پر انکوائری بٹھائے اور اس بدنظمی کے ذمہ داروں کو سزا دے۔ مگر سابقہ روایات کو دیکھتے ہوئے امید نہیں ہے کہ حکومت کوئی قدم اٹھائے گی بلکہ چوہدری شجاعت کے نعرے “مٹی پاؤ” پر عمل کرتے ہوئے اپنے کاموں میں مشغول ہوجائے گی۔

لال مسجد والے تو اس واقعے کے ڈانڈے جنگ خندق سے ملا رہے ہوں گے جہاں کافروں نے کئی روز تک مسلمانوں کا محاصرہ جاری رکھا اور آخر کار اتنے زور کی آندھی اور طوفان آیا کہ کافروں میں افراتفری پھیل گئ اور وہ بناں جنگ لڑے اپنے اپنے علاقوں میں واپس چلے گئے۔

اب انتظامیہ امام بخش مرحوم کے وارثوں کو  جتنے بھی لاکھوں روپے دے کر ان کے ساتھیوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے امام بخش اپنے گھر والوں کو واپس نہیں ملے گا اور انتظامیہ کی بدنظمی اور لاپرواہی کا جو پول کھلا ہے اس کی تلافی نہیں ہوسکے گی۔ جب لال مسجد والوں کیخلاف ایکشن نہیں لینا تھا تو پھر پتہ نہیں کیوں پولیس کی اتنی بڑی نفری کو سارے پنجاب سے بلا کر کئی ہفتوں سے اسلام آباد میں ایسی حالت میں ٹھرایا ہوا تھاجہاں انہیں نہ پینے کا صاف پانی میسر تھا اور نہ ڈھنگ کا کھانا۔ 

پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جس کی بہتری کیلیے کسی حکومت نے ایک آنے کا بھی کام نہیں کیا بلکہ پولیس کو چوہدریوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ ہوا ہے جو اسے اپنی طاقت بڑھانے کیلیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم اکثر کہا کرتے ہیں کہ اگر حکومت معاشرے کو سدھارنے میں مخلص ہوگی تو وہ سب سے پہلے پولیس کے نظام کو درست کرے گی۔ آج تک کوئی حکومت اس طرف توجہ نہیں دے سکی کیونکہ اس کیلیے معاشرے کا بگاڑ فائدے میں ہوتا ہے نہ کہ سدھار۔