عنیقہ ناز نے کٹڑ اسلام پسند اور باعمل مسلمانوں کیخلاف علم بغاوت بلند کر کے اردو بلاگنگ میں شہرت پائی۔ انہوں نے خواتین کی آزادی پر بھی بہت کچھ لکھا اور خوب لکھا۔ وہ طالبان کے نام پر مسلمانوں کی خوب خبر لیتی رہیں۔ اردو بلاگروں میں شاید مکی جیسے دہریے اور عثمان جیسے روشن خیال ان کے حلقہ احباب میں سے تھے جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ کبھی کبھی راشد کامران بھی ان کی رائے ست اتفاق کر لیا کرتے تھے۔
اس جدید دور میں بھی اردو بلاگروں کی اکثریت ابھی بھی اسلام پسند ہے اور اپنے دین کا دفاع کرنا اپنا حق اسمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریت نے ان کی وفات پر اظہار افسوس کیساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ ان سے نظریاتی طور پر اختلاف کرتے تھے۔
عنیقہ ناز میں چند خوبیاں ایسی تھیں جو بڑے بڑوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا کرتی تھیں۔ وہ حقیقت پسند تھیں جن کا ماضی کی دلچسپ کہانیوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ وہ جب بھی عورتوں کے حق میں لکھتیں، ان کی ہم عصر خواتین بلاگر ان کیساتھ مل جاتیں۔ اس طرح مرد حضرات کو ان کا مقابلہ کرنے میں کافی دقت پیش آتی۔
ہماری اکثر اسلام پسند تحروروں پر انہوں نے کڑوے کسیلے تبصرے کیے اور اگر ہم ان کے تبصروں کا جواب بھی دیتے تو وہ جوابی حملہ کرنے میں ذرا برابر دیر نہیں لگایا کرتی تھیں۔ ہم نے جب آرمی میں داڑھی مندوانے کے واقعے پر ایک پوسٹ لکھی تو انہوں نے کچھ اس طرح کا تبصرہ کیا۔

مجھے یہ لائنیں لکھنے سے پہلے تھوڑا ہنس کر فارغ ہونا پڑا۔ جیسا کہ مجھ سے پہلے بھی کچھ لوگ حیران ہو چکے ہیں کہ داڑھی اور لمبے بال با عمل مسلمان ہونے کی نشانی ہیں۔ دراصل آپ جیسے معصوم اور سادہ لوگ ہی طالبان کی اصل طاقت ہیں۔ جب ہم با بار یہ کہتے ہیں کہ اسلام کو علامتوں کا مجموعہ نہ بنائیں تو اس سے یہی علامتی داڑھیاں، لمبے بال، اونچی شلواریں اور حجاب ہوتے ہیں۔ آپ ایک دفعہ پاکستان آنے کی جراءت تو کریں ان لوگوں کی ایک لمبی قطار سے ملوانے کی سعادت ضرورحاصل کریں گے جو ان حدوں سے آگے اسلام کو جانتے نہیں۔
واللہ آپکی یہ تحریر تو طالبان حامی گروہ کے لئیے ایک مثالی تحریر بن گئ ہے۔ اب جب بھی کسی کو قائل کرنا ہو گا کہ دراصل لوگ طالبان کی حمایت کیوں کرتے ہیں تو انہیں اسکا حوالہ ضرور دونگی۔ شکریہ۔

اپنی زندگی کے آخری دنوں میں انہوں نے بامقصد تحاریر لکھنا شروع کر دی تھیں۔ اس شوق میں ان کی تحاریر کافی لمبی ہو جایا کرتی تھیں مگر قاری کی دلچسپی پھر بھی برقرار رہتی تھی۔
طے شدہ شادیوں اور لڑکے لڑکیوں کی چھیڑچھاڑ پر ان کی تحاریر اور تبصرے بلاگروں میں گرما گرم بحث کا سبب بنا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی بچی کا نام لے کر چند بامقصد تحاریر لکھیں اور خوب لکھیں۔
ان کی 22 اکتوبر کو ایک کار حادثے میں موت واقع ہوئی جس نے ہم تمام بلاگروں کو رلا رلا دیا ہے۔ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ حادثے کے وقت انہوں نے سیٹ بیلٹ نہیں لگا رکھی تھی اور سر ونڈسکرین سے غکرانے سے ان کی موت ہوئی ہو گی۔ پاکستان میں اکثر لوگ سیٹ بیلٹ کے بغیر گاڑی چلاتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔ خدا انہیں جنت میں جگہ دے اور ان کی بیٹی کو صبرجمیل عطا فرمائے۔
اچھا ہوا ان کی تحاریر بلاگ سپاٹ پر ہیں جو ہمیشہ چمکتی دمکتی رہیں گی۔ اگر ہماری طرح ان کا اپنا ذاتی ڈومین اور بلاگ ہوتا تو ان کی وفات کے بعد دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے شاید غائب ہو جاتا۔