ملکی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ جو جماعتیں حکومت میں شامل ہیں وہی کراچی کی خونریزیوں کی ذمہ دار ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ کراچی کو جلتا دیکھ رہی ہیں اور کچھ نہیں کر رہیں۔ نہ انہوں نے ایوانوں میں شور مچایا ہے اور نہ ہی کراچی کے حالات کو سدھارنے کی سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔ ایم کیو ایم کے الطاف بھائی جن کے ایک اشارے پر مجمع ایسے خاموش ہو جاتا ہے جیسے انہیں سانب سونگھ گیا ہو وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کو کیوں کنٹرول نہیں کر پا رہے۔ اسی طرح اے این پی بھی ڈسپلن میں ایک مقام رکھتی ہے مگر وہ بھی اپنے کارکنوں کو سنبھال نہیں پا رہی۔ اسی طرح پی پی پی جس کی وفاق اور سندھ میں ایم کیو ایم اور اے این پی کیساتھ حکومت ہے وہ بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ فوج کا حال بھی انہی سیاسی جماعتوں جیسا ہے۔ اگر کوئی قومی حکومت کا سربراہ فوج کے سربراہ کو معطل کرتا ہے تو فوج اس کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بچا دیتی ہے۔ مگر کراچی کی قتل و غارت پر وہ بھی خاموش ہے۔ کیوں؟
کراچی کے بگڑتے حالات کا ایک ہی حل ہے۔ تمام لسانی جماعتوں پر پابندی لگا دی جائے اور ان کے موجودہ سربراہوں کو ایسے ہی سیاست سے الگ کرنے کا قانون بنایا جائے جس طرح مشرف نے کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی اے کی ڈگری کی شرط لگا کر بڑے بڑے سیاستدانوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے باہر بٹھا دیا تھا۔
اگر سیاسی جماعتیں کراچی کے امن کیلیے کوئی کردار ادا نہیں کرتیں تو پھر فوج کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھے اور کراچی میں مارشل لگا دے۔ اگر ایک ہفتے میں کراچی کے حالات ٹھیک نہ ہو گئے تو ہم بلاگ لکھنا چھوڑ دیں گے۔
یہ بے غیرتی نہیں تو اور کیا ہے کہ پاکستان کی معاشی شہ رگ کو کاٹا جا رہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ ویسے ہمیں تو یہ پی پی پی اور اس کی حواری جماعتوں کے غیروں کے ہاتھوں بکنے کا اشارہ لگتا ہے جو کراچی کی بدحالی، توانائی کے بحران اور ریلوے، سٹیل مل اور پی آئی اے جیسے قومی اداروں کی بربادی پر بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ اگر کسی اور میں ملک میں معاشی حالات اتنے خراب ہوئے ہوتے تو حکومت کب کی مستعفی ہو چکی ہوتی۔
ہمیں تو لگتا ہے موجودہ حکومت اور اس کے حواریوں سے بیرونی طاقتیں وہی کام لے رہی ہیں جو انہوں نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کیلیے گورباچوف سے لیا تھا۔