ہمارے حکمران اکثر ایسے بیانات دیتے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی مینٹل نے بیان دیا ہے۔ اب آج کا وزیراعظ٘م کا بیان پڑھیے اور سوچیے کہ یہ راجہ رینٹل کا بیان ہے یا راجہ مینٹل کا۔ وہ کہتے ہیں پاکستان کی بڑھتی آبادی بڑھنے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ واقعی انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں مگر ان لوگوں کو ضرور پریشانی ہو گی جنہوں نے ملک پر ڈبل کئے گئے قرضوں کا بوجھ برداشت کرنا ہے۔
اسی طرح رحمان ملک کے بیانات عقل سے عاری ہوتے ہیں۔ کبھی وہ کراچی میں موٹر سائیکل پر پابندی لگا دیتے ہیں تو کبھی پارلیمنٹ سے شکوہ کرتے ہیں کہ اگر قانون بنتا تو کراچی امن کا گہوارہ ہوتا۔ جو قوانین ان کی حکومت نے بنانے تھے وہ تو بنا لیے۔ مثال کے طور پر ججوں پر تنقید کا۔ مگر یہ کراچی میں امن و امان کیلیے قانون نہ بنانے پر اپنے ہی ارکان اسمبلی سے شکوہ کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر مذہبی امور خورشید شاہ نے کہا ہے کہ کراچی میں موبائل فون اور موٹرسائیکل پر پابندی رحمان ملک کا ذاتی خیال ہے حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کیسی بونگی ہے اپنے وزیرداخلہ کے آرڈر کو ان کا ذاتی خیال کہا جا رہا ہے۔
ایک اور بیان میں ملک صاحب اعلان کرتے ہیں کہ آئندہ ہفتے شریف برادران کی کرپشن کے ثبوت لائیں گے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اس ہفتے کیوں نہیں؟
میڈیا پر ووٹ کے تقدس کی اتنی تشہیر اور عوامی شعور میں اضافے کے باوجود اس دفعہ عوام نے اگر نیک اور مخلص لوگوں کو ووٹ نہ دیے تو پھر ملک مزید معاشی بدحالی کا شکار ہو جائے گا۔ ہماری بھی عوام سے استدعا ہے کہ خدارا اس دفعہ پارٹی بنیاد کی بجائے امیدواروں کی اہلیت کی بنیاد پر ووٹ ڈالیے گا تا کہ زرداری، راجہ مینٹل اور ملک رحمان جیسے لوگ دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکیں۔