پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں ایک روش یہ چلی ہوئی ہے کہ لوگ انصاف اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ چھوٹے سے لیکر بڑے تک نے عدالتوں سے رجوع کرنے کی بجائے خود انصاف کرنا شروع کر دیا ہے۔
ابھی اس ہفتے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم کو نامعلوم افراد نے زدوکوب کیا۔ کل ان کے بیٹے پر نامعلوم افراد نے تشدد کیا اور ان کی گاڑی بھی جلا دی۔ محترم وکیل کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ہائی کورٹ میں موجودہ چیف کی سروس میں تین سال کے اضافے کیخلاف اپیل دائر کی ہے۔ سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا ہے کہ وکیل کا ٹیکسی ڈرائیور کیساتھ جھگڑا ہوا اور وہ اس واقعے کا مشتہر کر کے سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔لوگ گواہ ہیں کہ جب بھی خفیہ ایجنسی والے کسی کیخلاف کاروائی کرتے ہیں یا انہیں غائب کرتے ہیں تو اسی طرح کی صفائی پیش کرتے ہیں۔
حقیقت تو یہی ہے کہ جب وکیل صاحب اور ان کے بیٹے کی کسی کیساتھ دشمنی نہیں ہے اور ان دونوں کو ہائی کورٹ میں چیف کیخلاف اپیل کے بعد تشدد کا نشانہ بنانا شک کو یقین میں بدلتا ہے کہ کون محترم وکیل کو تنگ کر رہا ہے۔ اگر آرمی چیف ہی قانون کو ہاتھ میں لے لیں گے تو پھر عام آدمی تو کراچی جیسے جدید شہر میں بھی انصاف اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور قتل و غارت کا سبب بنے گا۔
اچھا ہوتا اگر آرمی چیف اپنے خلاف مقدمے کا عدالت میں سامنا کرتے اور عام آدمی کیلیے ایک مثال قائم کرتے۔ مگر آرمی چیف سمجھتے ہوں گے کہ ان کو عدالت میں لے جانا ان کے عہدے اور ان کے ادارے کی توہین ہے اور یہی سوچ معاشرے کے بگاڑ کا سبب ہے۔