ہماری حکومت نے ڈی ایٹ کانفرنس کرا کے کوئی تیر نہیں مارا۔ پہلے تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو منا کر لانے کی کوشش نہیں کی۔ دوسرے اس کانفرنس سے سوائے فوٹو سیشن، کھانے اور وعدے وعید کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ نہ کوئی معاہدہ ہوا اور نہ کوئی موجودہ معاملات پر مشترکہ کاروائی کا ارداہ باندھا، بس غلط کام کرنے والوں کی مذمت کی گئی اور سربراہ ڈی ایٹ کی چیئرمین شپ پاکستان کو سونپ کر اپنے اپنے ملک چلے گئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم پر سخت موقف اپنایا جاتا اور فلسطینیوں کی ہر طرح سے مدد کی جاتی۔
ایک دوسرے کی ترقی کیلیے امداد دی جاتی۔ فنی صلاحیتوں کا تبادلہ کیا جاتا اور اس طرح ڈی ایٹ کو قوت بنانے کی بنیاد رکھی جاتی۔ مگر نہیں ایسا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ تمام سربراہ کٹھ پتلیاں ہیں اور ان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ خدا انہیں ہدایت دے تو دے وگرنہ عوام ان سے بدلہ لینے والے نہیں۔