واقعہ کربلا کی یاد ہر سال نو اور دس محرم کو منائی جاتی ہے۔ شہر شہر جلوس نکلتے ہیں، تازیے کو چوما جاتا ہے اور گھوڑے کے نیچے سے گزرا جاتا ہے۔ واقعہ کربلا سنانے کیلیے تربیت یافتہ ذاکر میدان میں اتر آتے ہیں۔ وہ واقعہ کربلا کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ سامعین اپنے حال کو بھول کر ماضی میں گزرے اس حادثے کو اپنے اوپر اس طرح طاری کرتے ہیں کہ اپنے جسم کو چھلنی کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔
مگر دس محرم کے بعد کالے کپڑوں میں ملبوس شاہ جی دہشت کی علامت بن جاتے ہیں۔ تمام مسلمان حضرت امام حسین کی قربانی کو بھول کر دنیا کی آلائشوں میں اس طرح گم ہوتے ہیں کہ انہیں نہ تو فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا رنج ہوتا ہے، نہ ایران پر پابندیوں کا دکھ ہوتا ہے، نہ عراق کی تباہی پر رونا آتا ہے، نہ چیچنیا کے مسلمانوں کی آہ و بکاہ انہیں سنائی دیتی ہے، نہ افریقہ میں بھوک سے مرتے مسلمان یاد آتے ہیں، نہ خود پر مسلط ڈکٹیٹر انہیں برے لگتے ہیں اور نہ انہیں رشوت لینے دینے میں کوئی عار محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے مسلمان آج اتنے بے بس ہیں کہ وہ دنیا میں سوائے سینہ کوبی یعنی اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے کچھ نہیں کر سکتے۔ سینہ کوبی استعارہ ہے بے بسی، کمزوری اور حال سے بے خبری کا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ واقعہ کربلا نہ منایا جائے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ اسلام کی قربانی سے سبق سیکھ کر اپنے موجودہ حال کو سدھارنے کی فکر کی جائے تا کہ کربلا کا واقعہ دوبارہ کہیں وقوع پذیر نہ ہو۔