تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ رینجرز اور پولیس کی لال مسجد کے طلبا سے جھڑپیں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے دونوں اطراف ہلاکتیں ہوئی ہیں۔  یہ کشیدگی آخری خبریں آنے تک جاری تھی۔

جنرل ضیا کے دور میں راولپنڈی پولی ٹيکنیک حکومت کیلیے درد سر بنا رہا اور اس کے طلبا نے بھٹو کے حق میں سخت مظاہرے کئے۔ یہ کالج چونکہ جی ٹی روڈ پر واقع تھا اسلیے طلبا آئے روز سڑک بلاک کردیتے تھے اور گاڑیوں پر پتھراؤ بھی کرتے تھے۔ آخر کار حکومت نے تنگ آکر اس پولی ٹیکنیک کو موسم گرما کی چھٹیوں میں پہلے طلبا سے خالی کرایا اور پھر ہمیشہ کیلیے بند کردیا۔ اس کے بعد یہاں پر ڈیفینس کالج بنا دیا گیا جو اب تک قائم ہے۔ جنرل ضیا نے اپنے اس اقدام سے ایک تو طلبا کے روز روز کے سڑک بلاک کرنے سے جان چھڑا لی اور دوسرے فوج کو ایک بنا بنایا ٹریننگ سنٹر مہیا کردیا۔

 ایوب دور سے لے کر ضیا دور تک طلبا ہر سیاسی تحریک میں حصہ لیتے رہے اور انہوں نے ہر دور حکومت میں سیاسی تحریکوں میں موثر کردار ادا کیا۔ یہ تو جنرل ضیا تھے جنہوں نے بھٹو کی پھانسی کے بعد طلبا تنظیموں پر پابندی لگا دی جو اب تک قائم ہے۔

ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر عام اداروں کے طلبا لال مسجد کی طرح کی تحریک شروع کرتے تو ان سے اس طرح نپٹا نہ جاتا جس طرح جامعہ حفصہ کے طلبا اور طالبات سے نپٹا جارہا ہے۔ حکومت لازمی سب سے پہلے اس ادارے کے پرنسپل سے مذاکرات کرتی اور پھر طلبا کو اعتماد میں لے کر کچھ ان کے مطالبات مانتی اور کچھ اپنے منواتی۔ اس کے بعد جب حالات قابو میں آجاتے تو پھر قانون پر عمل کرتے ہوئے اس طرح مستقل اقدامات اٹھاتی کہ راولپنڈی پولی ٹیکنیک کی طرح مسئلہ ہمیشہ کیلیے حل ہوجاتا۔

لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے اس مسئلے کو کسی نے بھی سنجیدگی اور ذمہ داری سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی مبصرین اور دوسرے لوگ اس مسئلے کو حکومت کا خود سے پیدا کیا ہوا مسئلہ کہتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت اور ایم ایم اے کے رہنماؤں نے ایک آدھ بار بے دلی سے کوششیں کیں مگر کسی نے اب تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی دوسرے بہت سارے مسائل کی طرح سوموٹو ایکشن نہیں لیا۔ اگر سپریم کورٹ چاہتی تو دونوں فریقین کو عدالت میں طلب کرتی اور کوئی نہ کوئی حل نکال لیتی۔

اسی طرح جنرل مشرف نے بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی اس پروفیشنل طریقے سے ہینڈل کیا ہے جس طرح انہوں نے طالبان کیخلاف یو ٹرن اور قوم کی مخالفت کے باوجود دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر اپنی رٹ کو ثابت کیا۔ کسی بھی فوجی حکومت کیلیے کسی بھی شورش کو طاقت سے دبانا آسان ہوتا ہے اور مذاکرات سے حل کرنا مشکل ۔ اس کی وجہ یہی ہےکہ فوجی صرف جنگ کی تربیت حاصل کرتا ہے سیاست کی نہیں۔ یہی وجہ ہے اب تک بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بھی گولی کی زبان استعمال کی جارہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کے زور پر کوئی بھی شورش مستقل بنیادوں پر ختم نہیں کی جاسکی اور جب طاقتور تھک گیا تو اس نے مذاکرات کے ذریعے ہی وہ شورش ختم کی۔ ویت نام، افغانستان، عراق، بوزنیا کی جنگیں اس بات کی گواہ ہیں۔

لال مسجد کے طلبا کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ دینی مدرسے کے طالبعلم ہیں اور مدرسوں کیخلاف جو ہوا چلی ہوئی ہے وہ بھی اسی سازش کا شکار ہوچکے ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب چین کے علاقے تیان من میں طلبا کی تحریک چلی تھی اور امریکہ سمیت ساری دنیا نے ان طلبا کے حق میں آواز اٹھائی تھی حالانکہ تب بھی طلبا نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا تھا مگر چونکہ چینی طلبا کی تحریک کمیونسٹ حکومت کیخلاف تھی اسلئے اسے جائز قرار دیا گیا اور آج تک اس تحریک کی یاد یورپ میں منائی جاتی ہے۔ اسی طرح پچھلے سال انڈیا میں میڈیکل کالجوں کے طلبا نے ایک بہت بڑی تحریک چلائی جو کئی روز جاری رہی اور حکومت کی عقل مندی سے اس تحریک کا بھی سیاسی حل نکال لیا گیا۔

اب بھی وقت ہے حکومت گولی کی زبان ترک کرکے مذاکرات کی زبان سے لال مسجد کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرے اور لال مسجد کو مزید لال ہونے سے بچا لے۔ دنیا میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو سیاست سے حل نہ ہوسکے بشرطیکہ طاقتور اس مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کا خواہشمند ہو۔ مسلم لیگ ق کے سیاستدان اگر لال مسجد کی انتظامیہ کو سیاسی حل پر قائل کرلیتے تو یہ ان کیلے ایک بہت بڑا اعزاز ہوتا۔  درانی صاحب کی پھرتیاں اور شیخ رشید کی سیاسی چالبازیاں اگراب کام نہ آئیں تو پھر کب کام آئیں گی۔ حکومت کو چاہئے کہ طلبا کو ورغلا پھسلا کر کسی حل پر مجبور کرلیں اور پھر اس کے بعد قانون کی عملداری سے کوئی مستقل حل ڈھونڈ لیں۔ یہی حکومت کیلیے بہتر ہے اور یہی مسلم لیگ ق اور لال مسجد کی انتظامیہ کیلیے۔ لال مسجد کی انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ حکومت کو مذاکرات کی دوبارہ دعوت دیں اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر حکومت کے ساتھ معاملات طے کرلیں۔ یہی ایک طریقہ ہے جامعہ کے معصوم طلبا اور طالبات کی جانوں کو ضائع ہونے سے بچانے کا۔

اسی طرح کی حکومتی کاروائیوں پر حبیب جالب نے چند شعر کہے تھے

لوگوں کا ہی خوں بہہ جاتا ہے ہوتا نہیں کچھ سلطانوں کو

طوفاں بھی نہیں زحمت دیتے ان کے سنگین ایوانوں کو

دیواروں میں سہمے بیٹھے ہیں، کیا خوب ملی ہے آزادی

اپنوں نے بہایا خوں اتنا، ہم بھول گئے بیگانوں کو

نکلیں نہ نکلیں ان کی رضا، بندوق ہے ان کے ہاتھوں میں

سادہ تھے بزرگ اپنے جالب، گھر سونپ گئے دربانوں کو

اسی موضوع پر ہماری تحاریر جامعہ حفصہ کی طالبات اور انتظامیہ کی ٹکر اور جامعہ حفصہ کے بارے میں حکومت کا کمزور موقف