“اگر میں شہید ہوگیا تو میں نے بھائی صالح نثار سے 50 روپے لیے ہیں اور مولانا نذیر فاروقی کے بیٹے عبداللہ سے 30 روپے لیے ہیں۔ خیر اللہ شہادت کی موت بہت کم لوگوں کو ملتی ہے اور تو گنہگار تو بڑا خوش نصیب ہے کہ تجھے شہادت کیلیے سامنے ہی جگہ مل گئ ہےاور جب میں شہید ہوجاؤں تو چہرہ رونے کیلیے گھر والوں کو نہ دکھانا، رونا تو بذدلوں کا کام ہے اور تم تو بذدل نہیں ہو۔ تم تو دلیر اور بہادر ہو اور تم سب محلہ والوں میں سے خوش نصیب ہو کہ تمہارے گھر میں کوئی مرتبہ شہادت پر نصیب ہوا ہے اور جب میں شہید ہوجاؤں تو مجھے تم سب اور محلے والے اور جتنے احباب دوست بھی ہیں، ان سے کہنا کہ خیر اللہ کو معاف کرنا۔ غلطی تو اس سے ہوئی ہے اور میں نے سب کو معاف کیا ہے چاہے وہ گھر والے ہوں، محلے والوں ہوں یا دوست احباب۔ آپ سب سے میری ہے کہ نماز کو پابندی کیساتھ اپنے اوقات پر پڑھنا، خدا کی قسم قیامت میں تم سے مال جائیداد، دوستی کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ قیامت میں تم سب سے صرف اور صرف نماز کا پوچھا جائے گا اور جب میں شہید ہوجاؤں توتو جن بھائی دوستوں سے میں نے پیسے لیے ہیں ان کو لوٹا دینا یاد سے”۔

ملک کے اکثر تجزیہ نگار اگر غازی برادران کے رویے کو غلط کہ رہے ہیں تو دوسری طرف حکومتی کاروائی کو بھی بلاجواز بتا رہے ہیں۔ اکثریت جن میں کالم نگار جاوید چوہدری اور اطہر عباس بھی شامل ہیں کے مطابق لال مسجد کا سانحہ ٹالا جاسکتا تھا اور اس کا پرامن حل نکالا جاسکتا تھا۔  مدرسہ حفصہ کے ہزاروں طلبا طالبات کا اتنا بڑا قصور نہیں تھا جتنی بڑی انہیں سزا دی گئ۔