حضرت موسیٰ نے جب بنی اسرائیل کو جنگ کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے کہا خدا تمہارا رب ہے تم اکیلے ہی اس کیلیے جنگ لڑو۔ ہم کیوں اپنی جانیں گنوائیں۔ یہی حال آج کے مسلمان ممالک کا ہے۔ شام کو سبق سکھانے کی باری آتی ہے تو مسلمان ممالک مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں اور شام پر حملہ کرنے کی صورت میں جنگ کا خرچ اٹھانے کی بھی حامی بھرتے ہیں۔ جب او آئی سی کی موجودگی کے باوجود مسلمان ممالک مل کر بھی شام کو خود سے سبق نہیں سکھا سکتے، تو پھر اربوں ڈالر اسلحے پر خرچ کرنے کا کیا فائدہ۔ اس سے تو بہتر ہے کہ مسلمان ممالک اپنی افواج ختم کر دیں اور مغربی ممالک کو خراج دے کر اپنی حفاظت کی گارنٹی لے لیں۔ اس طرح دفاع پر خرچ ہونے والی رقم ملک کی ترقی کے کام آئے گی۔ یہی کچھ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی اور جاپان نے کیا اور چند دہائیوں میں ترقی یافتہ ممالک بن گئے۔
آج کل تو مسلمان ممالک کی افواج استعمال ہوتی ہیں تو صرف اپنی عوام کو کچلنے کیلیے اور وقت پڑنے پر بیرونی طاقتوں کے مفادات کی خاطر اپنی حکومتوں کی بساط الٹنے کیلیے۔ مسلمان تو صرف احتجاج تک محدود رہ گئے ہیں۔ شام پر حملے کیخلاف جلوس نکالیں گے، توڑ پھوڑ کریں گے اور چند دن بعد دنیاوی کاموں میں مشغول ہو جائیں گے۔
تف ہے ایسی مسلمانی طاقت پر جو وقت پر استعمال نہ ہو سکے اور اپنے مسائل حل کرنے کے کام نہ آ سکے۔