ایکپریس کے مطابق سابق صدر آصف زرداری کے پیر اعجاز ان کی رخصتی پر ان کی گاڑی کے چکر لگا کر دم پڑھتے رہے، ان کی گاڑی کے جھنڈے پر پھونکیں مارتے رہے۔ توہم پرستی کی یہ انتہا ہے۔ مگر آصف زرداری کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی بابا بینظیر کو لمبی زندگی نہیں دے سکا تو پھر پیر اعجاز جتنا دم پڑھ لے ان کی ناالنصافیوں کے آگے ڈھال نہیں بن سکے گا۔ پیر اعجاز سے کوئی یہ بھی پوچھے کہ اگر اس چلوں میں اتنا ہی دم ہے تو پی پی پی کا انتخابات میں صفایا کیوں ہو گیا۔

اے پی سی آج اسلام آباد میں ہو رہی ہے۔ یہ صرف ایک تقریب اور نمائشی کاروائی سے زیادہ کچھ نہیں ہو گی۔ ایک متفقہ قرارداد پاس ہو گی جس پر کبھی عمل نہیں ہو گا۔ دہشت گردی جاری رہے گی جب تک حکومت سنجیدگی کیساتھ بلوچستان اور افغانستان کے مسئلے کا حل نہیں نکالے گی۔ اور مشرف اور زرداری کی سابقہ حکومتوں کی طرح اس حکومت سے بھی اس حل کی کم ہی امید ہے۔

مقتول شاہ زیب کے وارثوں نے فی سبیل اللہ اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کر دیا ہے۔ مگر کچھ ذرائع کا دعویٰ ہے ورثا کو بیرون ملک پچاس کروڑ روپے کی ادائیگی ہوئی ہے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں امیر اور بااثر قاتل جیتے ہیں اور قانون ہارا ہے۔ ورثا کی میڈیا پر تمام بڑھکیں طاقتوروں کے سامنے آخرکار ڈھیر ہو گئیں اور پیسہ اور طاقت والے ہمیشہ کی طرح جیت گئے۔ اس کیس نے پھر سے ثابت کر دیا ہے کہ اگر آپ امیر اور طاقتور ہیں تو کئی طریقوں سے انصاف خرید سکتے ہیں۔ اگر یہی قاتل غریب ہوتے تو ہم دیکھتے ایک ڈی ایس پی کے عہدے کا وارث کیسے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کرتا۔ وہ تو ان کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہی مار دیتا۔ اگر ہماری عدلیہ اور حکومت قانون کا بول بالا کرنا چاہتی ہے تو اس معافی پر بھی سوموٹو ایکشن لے اور ورثا کی معافی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے امیر قاتلوں کی سزا کو بحال رکھے۔ اب سب کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ قاتل نے سزا کے اعلان کے بعد کیوں وکٹری کا نشان بنایا تھا۔ ہائے رے ہماری عدلیہ اور انتظامیہ جو مقتول کے ورثا کو تحفظ فراہم نہیں کر سکی اور انہوں نے اپنی جان کی امان کی خاطر اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کر دیا۔