چیف جسٹس کے حق میں عوام نے جو تحریک چلائی اس کا ثمر بس ملنے ہی والا ہے۔ ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا فل بینچ فیصلہ کرتے وقت آوازٍ خلق کو ضرور سامنے رکھے گا۔ اگر وکلا اور سیاسی پارٹیاں چیف جسٹس کے حق میں آواز بلند نہ کرتیں تو اب تک چیف جسٹس کے ریفرنس کا فیصلہ ان کیخلاف ہوچکا ہوتا اور وہ فارغ بھی ہوچکے ہوتے۔ اب کم از کم سپریم کورٹ حکومتی دباؤ میں آکر چیف جسٹس کیخلاف فیصلہ نہیں دے گی۔ حق کی بات تو یہ ہے کہ فیصلہ چیف جسٹس کے حق میں دے کر ان کیخلاف ریفرنس ختم کرکے انہیں بحال کردیا جائے مگر سپریم کورٹ ابھی تک پوری آزاد نہیں ہے اور امکان یہی ہے کہ چیف جسٹس کو بحال کردیا جائے گا مگر ریفرنس واپس نہیں لیا جائے گا۔ اس طرح دونوں فریقوں کو خوش کرنے کی درمیانی راہ نکالی جائے گی۔ شاید اسی خوف کی وجہ سے وکلا نے کہا ہے کہ وہ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد بھی ڈکٹیٹر مخالف تحریک جاری رکھیں گے۔ اگر سپریم کورٹ نے اس طرح کا فیصلہ دیا تو پھر یہ عوامی فیصلہ نہیں ہوگا اور عدالتی بحران حل نہیں ہو گا۔

عوام اگر میدان میں کود پڑیں تو بڑے بڑوں کی چھٹی کرادیتے ہیں۔ یہ عوام ہی تھے جنہوں نے فرانس کی بادشاہت ختم کی۔ یہ عوام ہی تھے جنہوں نے ایران کے شاہ کو ملک بدر کیا۔ یہ عوام ہی ہیں جنہوں نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کو ابھی تک متحد رکھا ہوا ہے۔ لیکن عوامی طاقت اگر کسی مخلص انسان کی قیادت کے تلے جمع نہ ہو تو پھر ضائع ہو جاتی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ عوام کی طاقت کا صيحح استعمال ان کا مخلص لیڈر ہی کرسکتا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک عوامی طاقت اسلیے سوئی ہوئی ہے کہ اسے کوئی مخلص لیڈر نہیں ملا۔ آج اگر بینظیر، نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور دوسرے قومی ليڈر عوام کیساتھ مخلص ہوجائیں تو ڈکٹیٹرشپ چند دنوں میں ختم ہوسکتی ہے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دشمن نے ہمیں کبھی متحد نہیں ہونے دیا اور ہمارے اندر اختلافات پیدا کرکے آج تک ہمیں آزادی کے باوجود غلام بنایا ہوا ہے۔

اگر عوام کی طاقت سپریم کورٹ کے فیصلے کو بدل سکتی ہے تو پھر حکومت کے فیصلوں کو بھی بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ لال مسجد کا سانحہ جس نے ملک میں عدم استحکام کی بنیاد ڈال دی ہے روکا جاسکتا تھا اور اگر عوامی طاقت سڑکوں پر نکل آتی اور سپریم کورٹ کی طرح حکومت کو بھی اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے پر مجبور کردیتی تو یہ سانحہ کبھی وقوع پذیر نہ ہوتا۔ اس سے پہلے کہ لال مسجد کے متاثرین کی بد دعائیں سٹاک مارکیٹ، امپورٹ ایکسپورٹ اور امن و امان کو تباہ کردیں، حکومت کو کچھ کرنا ہوگا۔

عوام کی خواہش یہی ہے کہ ملک میں غیروں کے مقاصد کی تکمیل کرتے کرتے ملک میں امن و امان کو تباہ کرنے کی بجائے، حکومت عوامی کانفرنس بلائے اور اس کا اجلاس عوام کے سامنے ہو تاکہ جو بھی بات ہو عوام اس سے بے خبر نہ ہوں۔ اس کانفرنس میں آواز خلق کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے جائیں تاکہ موجودہ تشدد کی لہر کا خاتمہ ہو سکے۔ اس تشدد کی لہر نے انگریزی اخباروں کے ایڈیٹروں اور کالم نگاروں [جو اقلیت میں ہیں] کے لال مسجد کے بحران کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کے فیصلے کو غلط قرار دے دیا ہے۔ اگر لال مسجد کا سانحہ وقوع پذیر نہ ہوا ہوتا تو آج اتنے خود کش حملے نہ ہورہے ہوتے۔

اب بھی وقت ہے حکومت طاقت کے زور پر فیصلے کرنے بند کردے اور آوازٍ خلق کو سنے۔ عوام یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں امن ہو اور امن کیلیے ضروری ہے کہ طاقت پر مذاکرات کو ترجيح دی جائے۔ فزکس کا اصول ہے کہ عمل کا رد عمل ضرور ہوتا ہے اسلیے حکومت اگر ذرا سی بھی سائنسی سوچ رکھتی ہے تو اس اصول کو نہ بھولے۔