جنرل کیانی کو پچھلی حکومت نے تاریخ میں پہلی بار تین سال کی توسیع دی اور موجودہ حکومت بھی کچھ اسی کشمکش کا شکار ہے کہ وہ جنرل کیانی کو کیسے مزید توسیع دے۔موجودہ حکومت کیلیے جنرل کیانی کو ان کے عہدے کی مدت میں توسیع دینا مشکل لگ رہا ہے اس لیے وہ انہیں کوئی ایسا متبادل عہدہ دینے کا سوچ رہی ہے جو جنرل کے اختیارات رکھتا ہو۔ وال سٹریٹ اخبار کے مطابق یا تو جنرل کیانی کو جنرل کے ہی اختیارات کیساتھ جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا جائے گا یا نواز شریف کا دفاعی مشیر بنایا جائے گا یا پھر امریکہ میں پاکستانی سفیر لگا دیا جائے گا۔
پہلی صورت تو روسی صدر پیوٹن کی طرح ہے جو جب قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے صدارتی عہدے کے اہل نہ رہے تو پہلے انہوں نے خود ہی صدر کے اختیارات وزیراعظم کے عہدے کو منتقل کیے اور پھر تب تک وزیراعظم رہے جب تک دوبارہ صدر بننے کے اہل نہ ہو گئے۔ اسے کہتے ہیں ڈکٹیٹرشپ جو یورپ کی موجودہ جمہوریت میں ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دنیا کی سپرپاور ہونے کے باوجود اس کا صدر زیادہ سے زیادہ آٹھ سال تک رہتا ہے اور اس کے بعد اسے کوئی اہم عہدہ نہیں دیا جاتا۔
اگر امریکہ اس اصول پر عمل کر کے سپرپاور رہ سکتا ہے تو پھر پاکستان میں جنرل کیانی کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے؟ آرمی جیسے مضبوط ادارے کو اگر یہ مشکل پیش آ رہی ہے تو پھر سول اداروں کے عہدیداروں کی مدت ملازمت میں توسیع تو بہت آسان ہو گی۔
ہمارے نبی صلعم کا فرمان ہے کہ ان کی رخصتی کے بعد ان کی قبر کو پوجنا مت شروع کر دینا یعنی اسلام میں شخصیت پرستی ناپنسدیدہ ترین فعل ہے۔ مگر ہم نے اپنے نبی صلعم کی بات نہیں مانی اور شخصیت پرستی کے حصار سے باہر نہیں نکل پائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان یورپی ممالک کے مقابلے میں ترقی نہیں کر پائے کیونکہ ہم پر جو لوگ مسلط ہوتے ہیں وہ مرنے تک مسلط رہتے ہیں۔ وہ چاہے امام مسجد ہوں، علمائے اکرام ہوں، سیاسی سربراہ ہوں، حکمران یا گھر کے وڈیرے۔ وہ یا تو زبردستی ہٹائے جاتے ہیں یا پھر قدرتی آفات ان سے چھٹکارا دلاتی ہیں۔