ابھي چند سال کي بات ہے کہ حکومت نے ايف ايس سي کے امتحانات کے بعد ميٹرک کے نويں اور دسويں جماعت کے امتحانات الگ الگ لينے شروع کۓ اور وجہ يہ بيان کي گئ کہ چونکہ ترقي يافتہ ملکوں ميں ايسا ہوتا ہے اور اس طرح طالبعلموں پر تعليم کا بوجھ بھي بانٹا جاتا ہے۔ مگر اب اسي حکومت نے الگ امتحان کينسل کر کے دوبارہ يکجا کر ديۓ ہيں اور اس کي وجہ بھي بيان کرنے کرنے کي ضرورت محصوص نہيں کي۔
ہماري حکومتوں نے تو تعليم کو ايک کھلونا سمجھ رکھا ہے جب چاہا اس کو توڑ مروڑ کر رکھ ديا۔جب چاہا اس ميں کمي بيشي کر دي۔اب تو ہماري تعليمي پاليسي بھي غيروں کے اشاروں پر بننے لگي ہے۔ اس حکومت نےجتني تبديلياں پچہلے دو چار سال ميں کي ہيں اتني اس سے پہلے کبھي نہيں ہوئي ہوں گي۔
سناہے مطالعہ پاکستان سے تاريخِ پاکستان کے شروع کے باب نکالے جارہے ہيں اورمطالعہ پاکستان کو حالات ِحاضرہ کا کورس بنايا جارہا ہے۔ہم يہ سب کچھ لوگوں کے دلوں سے بھارت کي نفرت کم کرنے کيلۓ کر رہے ہيں ليکں سوچنے کي يہ بات ہے کہ کيا بھارت نے بھي ايسا کيا ہے۔ اسي طرح اسلاميات سے جہاد کے بارے ميں تمام اسباق نکالے جارہے ہيں تاکہ مسلمانوں کا يہ جزبہ ختم کر ديا جاۓ۔ اردو کي جگہ انگريزي کو زيادہ اہميّت دي جارہي ہے تاکہ ہميں يورپي کلچر پڑھنے اور اس کا اثر قبول کرنے ميں کوئي دقّت پيش نہ آۓ۔
اگر يہ ساري تبديلياں قوم کي بھلائي کيلۓ ہوتيں تو کوئي برا نہيں تھا مگر جب ان تبديلييوں کے پيچھے بري نيّت چھپي ہو تو پھر افسوس ہوتا ہے۔
حيراني والي بات يہ ہے کہ اگر فوج ہي قوم کے دل سے جہاد نکال دے گي تو پھر خود کيسے لڑے گي۔ اگر ہم پاکستان بننے کي وجوہات ياد نہيں رکھيں گے تو پھر پاکستان کو قائم کيسے رکھ پائيں گے۔
بہتر يہ ہوتا کہ پہلے ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کا ايک بورڈ بنايا جاتا اور ان کي سفارش پر لوگوں اور ملک کي بہتری کو ذہن ميں رکھتے ہوۓ نصاب ميں تبديلياں کي جاتيں۔ مگر جب قوم کي باگ دوڑ ايک فردِ واحد کے ہاتھ ميں ہو تو پھر مشاورت کونسي۔ يہ ہميشہ ہمارے ملک کا دستور رہا ہے کہ فردِ واحد ہي قوم کے مستقبل کے فيصلے کرتا رہا ہے اور باقي لوگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منہ تکتے رہے ہيں۔ اب اسمبلي کے سارے ممبران کو چپ لگي ہوئي ہے اور کوئي بھي فردِواحد کے فيصلوں کے خلاف احتجاج نہيں کر رہا۔ ہر ايک کو اس کي حيثيت کے مطابق ہڈي ڈال دي گئي ہے اور وہ وہي ہڈي چوسنے ميں مگن ہے۔