یہ ہماری اسلامی زندگی کا المیہ رہا ہے کہ ہم اپنی جوانی میں تو کھل کر عیاشی کرتے ہیں اور جب بوڑھے ہوتے ہیں تو پھر شرافت کا لبادہ اوڑھنے کیلیے داڑھی رکھ لیتے ہیں، عمرے اور حج کرتے ہیں اور پانچ وقت مساجد میں حاضری دینی شروع کردیتے ہیں۔

ویسے لال مسجد کے سانحے میں ہم نے بہت سے اہلکار داڑھی میں دیکھے۔ اب پتہ نہیں ان کی داڑھی کئی دن کی سخت ڈیوٹی کی وجہ سے بڑھی ہوئی تھی یا حکومت نے جان بوجھ کر سافٹ امیج کیلیے داڑھی والے سکیورٹی اہلکار تعینات کئے تھے۔

آپ ہماری مساجد دیکھ لیں بوڑھوں سے بھری ہوں گی۔ آپ کو نوجوان بہت کم پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اسی لیے ہم محسوس کررہے ہیں کہ باعمل مسلمانی دنیا میںاب پہلے سے بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس باعمل مسلمانی کی ابتری میں جہاں میڈيا کا بہت بڑا کمال ہے وہیں حکومت بھی ذمہ دار ہے۔ خود ہمارے حکمران صرف دکھاوے کیلیےmusharrafumra.jpg عبادت کرتے ہیں اور اس جگہ عبادت کرتے ہیں جہاں میڈیا دیکھ رہا ہو۔ سیاستدان یا سرکاری افسر شاید ہی اپنے خرچ پر عمرے یا حج کی سعادت حاصل کرتا ہوگا۔ ان کی اکثریت جب حکومت میں ہوتی ہے تو کئی دفعہ حچ اور عمرے کی سعادت کی لیے صرف اکیلے ہی نہیں بلکہ فوج ظفر موج ساتھ لے کر جاتی ہے اور جب یہ لوگ حکومت سے باہر ہوجاتے ہیں تو انہیں ایک دفعہ بھی حج یا عمرے کی توفیق نہیں ہوتی۔

آج کل سرکاری حکمرانوں کیلیے عمرے کی سعادت کچھ زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ایک تو انتخابات نزدیک آرہے ہیں جن کی وجہ سے حکمرانوں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنی مسلمان رعایا کے خون سے ہاتھ رنگنے کے باوجود مسلمان ہیں۔ ان کے دور حکومت میں اگر کراچی میں چالیس پچاس مسلمان قتل ہوئے،  بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں درجنوں قتل کئے گئے، لال مسجد کے سانحے میں سینکڑوں معصوم طلبا و طالبات جان سے گئے یا پھر سیلاب میں لوگ بہ گئے انہیں کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہ کعبے میں جا کر خدا کے حضور ان سب جرائم کا جواز اسی طرح بیان کردیں گے جس طرح اپنے عوام کے سامنے بیان کرتے ہیں۔

یہ تارکِ نماز اور چھپ چھپ کر شراب وکباب سے لطف اندوز ہونے والے اب سیفد کپڑے کے احراموں میں اپنے جسموں کو لپیٹ کر تصویریں اخباروں میں چھپوائیں گے، ٹی وی پر انہیں کعبے کے طواف کرتے دکھایا جائے گا اور سینکڑوں کے قافلے کیساتھ عمروں پر غریب عوام کے کروڑوں روپے خرچ کرکے لوٹ آئیں گے۔ ادھر ہم بیوقوف لوگ ان کی اس دکھاوے کی عبادت کی وجہ سے انہیں اپنے مسلمان حکمران کہتے نہیں تھکیں گے۔ ہمیں تو لگتا ہے عمرے کا مشورہ بھی انہیں ان کے وہی مشیر دیتے ہیں جن کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے یہ اب تک سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کرچکے ہیں۔

کتنا اچھا ہوتا اگر ان عمروں پر خرچ ہونے والی رقم سیلاب زدگان کی بحالی پر خرچ کر دی جاتی۔ اس رقم سے سینکڑوں غریبوں کا بھلا ہوجاتا۔ مگر دوبارہ انتخاب جیتنے کیلیے عمرہ ضروری ہے غریبوں کی مدد نہیں کیونکہ غریب ابھی مہنگائی کو برداشت کرتے آرہے ہیں۔

کیا یہ سمجھتے ہیں کہ سفید احرام پہن کر وہ اپنے جسموں پر لگے خون کے دھبے چھپا لیں گے۔ کیا ان کو یقین ہے کہ اپنے ہی مسلمان بھائی بہنوں کے قتل وہ ایک عمرے سے بخشوا لیں گے۔

کیا یہ قرآن میں خدا کے فرمان کو نہیں جانتے جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تمہاری دکھاوے کی عبادت قیامت کے روز تمہارے منہ پر مار دی جائے گی۔ کیا وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھول گئے ہیں کہ اگر ان کی حکومت میں ایک کتا بھی بھوکا سویا تو اس کا حساب ان سے لیا جائے گا۔ ہاں ہمارے حکمران یہ سب کچھ بھول چکے ہیں کیونکہ انہیں آخرت پر ایمان ہی نہیں ہے۔ ان کے نزدیک نہ قیامت آئے گی، نہ حساب کتاب ہوگا۔ اگر یہ لوگ خدا پر یقین رکھتے  ہوتےاور انہیں آخرت کے حساب کا ڈر ہوتا تو پھر یہ لوگ کبھی بھی شراب و کباب سے دن رات عیاشیاں نہ کرتے، دکھاوے کے عمرے نہ کرتے اور بھوکے سونے والوں سے لاپرواہ نہ ہوتے۔

ہم اگر دنیا میں پولیس والوں کی مار اور عدالتوں کی سزا کے ڈر سے جرائم نہیں کرتے تو پھر آخرت کے عذاب کے ڈر سے گناہوں سے توبہ کیوں نہیں کرلیتے۔ وجہ صرف یہی کہ ہم بقول شخصے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قیامت کس نے دیکھی ہے۔