ہرقوم کیلیے شہید کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی قوم کے دفاع میں جان دینے والے کو سب اقوام شہید کہتی ہیں۔ اسی طرح مذاہب کے دفاع میں لڑتے ہوئے مرنے والے کو تمام مذاہب شہید کہتے ہیں۔ اب پتہ نہیں جماعت اسلامی اور فوج میں اس بات پر اختلاف کیوں پیدا ہو گیا ہے۔ جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اس نے مذہب کے دفاع میں مرنے والے کو شہید ماننا ہے اور ہماری فوج نے پاکستان کے دفاع میں مرنے والے کو شہید کہنا ہے۔ جماعت اسلامی کسی کو بھی شہید تو کہہ سکتی ہے مگر اسے کسی کے شہید پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر فوج ملک کے دفاع میں مرنے والے اپنے فوجیوں کو شہید کہتی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ جماعت اسلامی کو چاہیے تھا کہ وہ اس نازک موضوع پر اپنی زبان بند ہی رکھتی مگر نہ جانے کیوں اقلیت میں ہوتے ہوئے اس نے نہ صرف فوج بلکہ باقی ملکی جمہوری جماعتوں کو بھی اپنا دشمن بنا لیا ہے۔
حالانکہ جماعت نے ہمیشہ فوج کا ساتھ دیا ہے بلکہ ملک میں لگنے والے مارشل لاز کی بھی اکثر حمایت کی ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی ابھی تک فوج کی حمایت کرنے کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ مگر ایسے نازک دور میں اس طرح کا بیان بیوقوفی ہی کہا جا سکتا ہے۔ جماعت کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے بیان کا دفاع کرنے کی بجائے مصلحت کا راستہ اختیار کرتی اور فوج کے شہید کو شہید کہہ دیتی۔ ہمیں امید ہے فوج اور جماعت جلد ہی اس بگاڑ کا حل نکال لیں گی کیونکہ یہی ملک کی سلامتی کیلیے بہتر ہے۔