پاکستان کی تین چار شخصیات بہت طاقتور سمجھی جاتی ہیں۔ پی پی پی کے دور میں صدر اور آج مسلم لیگ ن کے دور میں وزیراعظم سمیت فوج کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ان شخصیات کی تبدیلی ایک نظام کی تبدیلی ہوتی ہے۔
فوج کے سربراہ کی تبدیلی بلکہ باقی شخصیات کی تبدیلی سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ ملک میں کئی دھائیوں تک فوجی حکومت رہی ہے۔
جنرل کیانی شاید فوج کے واحد سربراہ ہیں جنہوں نے مارشل لاء اور حکومت پر قبضے کے بغیر سب سے زیادہ عرصہ فوج کی قیادت سنبھالے رکھی۔ ان کی سربراہی سے پہلے ملک پر فوج قابض تھی، ملک دہشت گردی کا شکار تھا اور عوام کی نظروں میں فوج کی عزت اس حد تک گر چکی تھی کہ فوجی وردی پہن کر باہر نہیں جا سکتے تھے۔
جنرل کیانی نے شاید کسی معاہدے کے تحت سیاست میں مداخلت سے پرہیز کیا۔ ان کی ملازمت میں تین سال کی توسیع شاید اسی خفیہ معاہدے کا حصہ ہو گی جس کی وجہ سے پی پی پی نے بھی پاکستان میں پہلی بار اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔
جنرل کیانی کے دور میں امریکہ نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ کے آپریشن میں ہلاک کیا اور یہی جنرل کیانی پر سب سے بڑا الزام رہا ہے کہ ان کے دور میں فوج اپنی سرحدوں کی حفاظت میں ناکام رہی۔ اس کے علاوہ پی پی پی کی کرپشن پر خاموشی بھی جنرل کیانی کی ناکامیوں میں ایک ناکامی رہی۔ یعنی انہوں نے ملکی معشیت کا جنازہ نکلتے دیکھا مگر کچھ نہیں کیا۔ اگر وہ چاہتے تو سول حکومت کی کرپشن کو نکیل ڈال سکتے تھے۔
ان کی ایک ناکامی بلوچستان میں جاری جنگ ہے جس کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس جنگ میں بہت سارے سویلین غائب کر دیئے گئے جن کی بازیابی کیلیے سپریم کورٹ ابھی تک ناکام کوششیں کر رہی ہے۔
یہ سچ ہے کہ فوج میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی جنرل پر کبھی کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ مگر اس کے باوجود ہماری فوج کے جرنیل دنیا کے امیر ترین جرنیل مانے جاتے ہیں۔ اب جنرل کیانی بھی اس کلب میں شامل ہو چکے ہیں۔