’یاسین قوال کا چھوکرا‘
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

نثار بزمی

انیس سو سڑسٹھ میں جب ’لاکھوں میں ایک‘ ریلیز ہوئی تو نثار بزمی کا طوطی بولنے لگا

اب سے تراسی برس پہلے ممبئی کے نزدیک خاندیش کے قصبے میں مولوی گھرانے کے سید قدرت علی کے گھر ایک بچے نے جنم لیا۔ جب اسے سکول میں داخل کرایا گیا تو اس نے پڑھائی میں قطعاً دلچسپی لینے سے انکار کردیا۔ البتہ جہاں نعت اور نظم ترنم کے ساتھ پڑھنے کا موقع ملتا یہ بچہ سب سے آگے ہوتا۔ سید قدرت علی اپنے اس بچے کو دیکھ کر غمگین بھی ہوتے کہ وہ پڑھائی نہیں کرپا رہا اور خوش بھی ہوتے کہ ترنم کے سبب یہ بچہ مرکزِ نگاہ بن رہا ہے۔

باپ کی مشکل اس وقت حل ہوگئی جب ایک دورپار کے رشتے دار یاسین قوال کا ایک دن گھر آنا ہوا۔ یاسین نے جب بچے کو سنا تو سید قدرت علی سے درخواست کی کہ اس بچے کا اصل ٹیلنٹ موسیقی ہے اس لیے اس بچے کا ہاتھ مجھے دے دو۔ سید قدرت علی نے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد یاسین قوال کی بات مان لی اور یوں یہ لڑکا یاسین کی منڈلی کے ساتھ تیرہ برس کی عمر میں بمبئی
آ گیا اور گائیکی کے حلقوں میں یاسین کے چھوکرے کے نام سے پہچانا گیا۔

یہ منڈلی فنکشنز میں گا بجا کر کچھ نہ کچھ کما لیتی تھی۔

ایسی ہی کسی ایک جگہ خانصاحب امان علی خان نے یاسین کے چھوکرے کو سنا اور انہوں نے اسے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم دینے کی پیش کش کی۔ یاسین قوال نے بڑی خوشی سے لڑکے کو امان علی خان کی شاگردی میں دے دیا۔ سر، تال، لے، راگ ۔۔۔۔ لڑکا تیز نکلا اور اس نے خاں صاحب سے درخواست کی کہ میں گائیکی سے زیادہ کمپوزیشن میں دلچسپی رکھتا ہوں۔

چنانچہ جب یہ لڑکا اٹھارہ برس کا ہوا اور موسیقی کے بنیادی اسرار و رموز سمجھ گیا تو خان صاحب نے آل انڈیا ریڈیو میں انہیں پینتالیس روپے ماہوار پر بطور سٹاف کمپوزر ملازم رکھوا دیا۔ جہاں پروڈیوسر دینکر راؤ نے اس نوجوان سے ایک ریڈیو ڈرامے نادر شاہ درانی کے لیے چار دھنیں کمپوز کروائیں۔اس نوجوان نے رفیق غزنوی اور امیر بائی کرناٹکی سے یہ گیت گوائے اور یوں یہ نوجوان نثار بزمی کے نام سے میوزک کمپوزیشن کی دنیا میں داخل ہوا۔

نورجہاں کے آواز میں گانے “چلو اچھا ہوا تم بھول گئے”، نےتو جیسے آگ لگا دی (فائل فوٹو)

نثاربزمی کی شہرت اگلے دو برس میں آل انڈیا ریڈیو کے سٹوڈیوز سے نکل کر بمبئی کے فلمی سٹوڈیوز میں پہنچی اور ڈائریکٹر اے آر زمیندار نے انہیں اپنی فلم ’جمنا پار‘ کے گانے کمپوز کرنے کی پیشکش کی۔ یہ فلم انیس سو چھیالیس میں ریلیز ہوئی اور پھر اگلے بارہ برس کے دوران نثار بزمی نے چالیس فلموں کی موسیقی دی۔ لتا، آشا، مناڈے اور محمد رفیع سے گانے گوائے۔ رفیع کی آواز میں فلم ’ کھوج‘ کا گانا “چاند کا دل ٹوٹ گیا، رونے لگے ہیں ستارے” سن چالیس کے عشرے کے آخری برسوں میں آل انڈیا ریڈیو سے خوب خوب چلا۔

بمبئی میں بے پناہ پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود بزمی صاحب معاوضے کے اعتبار سے موسیقاروں کی سی کیٹیگری میں شامل تھے۔اس حیثیت میں انہوں نے پہلی بار آنند بخشی کو بطور نغمہ نگار فلم ’بھولا آدمی‘ میں متعارف کروایا
اور کلیان جی آنند جی کی جوڑی کو سازندوں کی جگہ سے اٹھا کر موسیقاروں کی صف میں شامل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

لیکن پھر وہ بمبئی کے کیٹگری اور کلاس سسٹم سے دل برداشتہ سے ہوگئے۔ انیس سو باسٹھ میں نثار بزمی نے بمبئی سے لاہور کا سفر اختیار کیا۔ بقول بزمی صاحب وہ آئے تو پندرہ دن کے لیے تھے لیکن یہ پندرہ دن پوری زندگی پر پھیل گئے جس دوست نعمان کے ساتھ وہ لاہور آئے اسی نے انہیں فضل احمد کریم فضلی سے ملوا دیا۔ جنہوں نے بزمی صاحب کی بمبئی کی کچھ کمپوزیشنز سن کر فیصلہ کیا کہ اب وہ واپس نہیں جا رہے بلکہ فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ کے گانے کمپوز کریں گے۔

بزمی صاحب نے نور جہاں کی آواز میں ” آئے آئے پیار کے دن آئے” انیس ٹیک میں ریکارڈ کیا۔ یہ پاکستان میں ریکارڈ ہونے والی نثار بزمی کی پہلی کمپوزیشن تھی۔ فلم تو انیس سو پینسٹھ میں ریلیز ہوئی لیکن نورجہاں کا گانا “ہو تمنا اور کیا جانے تمنا آپ ہیں” وباء کی طرح پورے ملک میں پھیل گیا۔ اسی شہرت کی بنیاد پر بزمی صاحب کو فلم ’ہیڈ کانسٹیبل‘ ملی جو ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ سے سال بھر پہلے ریلیز ہوگئی۔

رونا لیلی کو فلمی دنیا میں متعارف کروانے کا سہرا بزمی صاحب کے سر ہے

پھر ’حاتم طائی‘، ’عادل‘ اور انیس سو سڑسٹھ میں جب ’لاکھوں میں ایک‘ ریلیز ہوئی تو نثار بزمی کا طوطی بولنے لگا۔ “چلو اچھا ہوا تم بھول گئے”، اس گانے نے آگ لگا دی اور اسی برس مہدی حسن کی آواز میں فلم’ آگ‘ کا گانا “یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی” ریلیز ہوا۔ اگلے برس ہدایت کار فرید احمد کی فلم ’عندلیب‘ ریلیز ہوئی ” کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے”۔۔۔۔۔

انیس سو بہتر میں حسن طارق کی فلم ’ناگ منی‘ کا گانا “ساجنا رے”۔ بزمی صاحب نے اس کی دھن ایس ڈی برمن کی کمپوزیشن “رنگیلا رے” سے متاثر ہو کر ترتیب دی۔ بقول نثار بزمی یہ میری جانب سے ایک بڑے موسیقار کو خراجِ تحسین تھا۔

اس سے پہلے بزمی صاحب نے نویں جماعت کی ایک تیرہ سالہ بنگالی طالبہ کو دریافت کیا اور فلم ’آسرا‘ میں یہ گانا گنوایا، “نیناں ترس کر رہ گئے، پیا آئے نہ ساجنا”۔۔۔ جب بزمی صاحب ’ناگ منی‘ کا گانا “ساجنا رے” کمپوز کر رہے تھے تو ان کے ذہن میں رونا لیلی کی آواز تھی۔ حسن طارق نے کہا کہ میڈم نور جہاں کو اس کمپوزیشن میں گوا کر دیکھیں۔ بزمی صاحب نے کہا کہ جتنی ہائی پچ انہیں چاہیے وہاں شاید میڈم نہ پہنچ سکیں جب میڈم کو کسی نے یہ بات بتائی
تو وہ بزمی صاحب کے پاس آئیں۔۔۔’بزمی صاحب سنا ہے کہ ایسا بھی کوئی سکیل ہے جہاں تک میں نہیں پہنچ سکتی‘۔ اس پر بزمی صاحب نے نور جہاں سے “ساجنا رے” کی تان لگوائی اور پھر یہ گیت انہی کی آواز میں گوایا۔

اسی طرح امراؤ جان کا یہ گانا ’جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں‘۔ بزمی صاحب رونا سے اور فلم پروڈیوسر حسن طارق نور جہاں سے گنوانا چاہتے تھے۔ بزمی صاحب آخری وقت تک خفا رہے۔ اس گانے کی ریکارڈنگ میں انیس گھنٹے لگے۔ بزمی صاحب پھر بھی مطمئن نہ ہوئے لیکن جب یہ گانا سپرہٹ ہوا تب ان کا موڈ درست ہوا۔ لیکن اس طرح کے واقعات سے نثار بزمی اور نور جہاں میں بدظنی پیدا ہوگئی اور پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ نور جہاں نے سازندوں سے بزمی صاحب کے لیے کام کا بائیکاٹ کروادیا۔ اس کے نتیجے میں ان کا دل لاہور کی فلمی سیاست سے اچاٹ ہونے لگا اور انیس سو اکیاسی میں وہ کراچی شفٹ ہوگئے۔

نثار بزمی جانے سے پہلے طاہرہ سید کو فلمی دنیا سے متعارف کروا گئے (فائل فوٹو)

لیکن اس سے پہلے وہ عالمگیر (ہم چلے تو ہمارے سنگ سنگ نظارے چلے)، طاہرہ سید (یہ محفل جو آج سجی ہے) کو فلمی دنیا سے متعارف کروا گئے۔ امانت علی خان سے ’مورا جیا نہ لگے‘ ، مہدی حسن سے گانا ’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ‘ اور ’یہ وطن ہمارا ہے تم ہو پاسباں اس کے‘، مہناز سے ’میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا‘ اور ناہید اختر سے ’اللہ ہی اللہ کیا کرو‘ گوا گئے۔

بزمی صاحب کی آخری فلم ’ہم ایک ہیں‘ تھی جو سن پچاسی میں ریلیز ہوئی اس میں انہوں نے حمیرا چنا کو متعارف کروایا۔

کراچی میں اپنے آخری بیس برس میں انہوں نے اپنے کچھ شاگرد پیدا کیے لیکن زیادہ تر وقت گوشہ نشینی میں اپنی اولاد کے ساتھ گزارا۔

چون سالہ کیرئیر، ایک سو پندرہ ہندوستانی اور پاکستانی فلمیں، ایک شعری مجموعہ ’پھر سازِ صدا خاموش ہے‘، درجن بھر نگار ایوارڈ، ایک پرائیڈ آف پرفارمنس، آٹھ پسماندگان اولادیں اور لاکھوں سوگوار۔۔۔۔