چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریٹائر ہوتے ہی ان کی مخالفت میں اتنی زیادہ بیان بازی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ ان کے ریٹائر ہوتے ہی ان کی کارکردگی پر مٹی ڈالنے اور ان پر تنقید کرنے والوں کا تو تانتا ہی بندھ گیا ہے۔ اعتزاز احسن، علی احمد کرد، بابر اعوان، بلاول بھٹو، عاصمہ جیلانی، احمد رضا قصوری، خالد رانجھا، سعیدالزماں صدیقی کون بچا ہے جس نے اس کارخیر میں اپنا حصہ نہ ڈالا ہو۔
مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ مخالفین نے چیف کی ریٹائرمنٹ کے پہلے دن ہی اپنی بھڑاس کیوں نکال دی۔
جب اتنے سارے لوگ کسی کی مخالفت کریں گے تو اس میں کوئی بات تو ہوگی ضرور۔ لیکن اگر کوئی بات ہے تو پھر چیف کے اچھے کاموں کا کریڈٹ کدھر گیا۔ کیا چیف صاحب اتنے ہی خودغرض تھے کہ انہوں نے جتنے بھی اچھے کام کئے وہ اپنی ذات کیلیے کیے۔
یہ سچ ہے کہ جو کام چیف کو پہلے کرنا چاہیے تھا یعنی عدالتی نظام کو درست کرنا وہ نہیں کر پائے۔ مگر یہ کام نہ تو ایک آدمی کے بس کا تھا اور نہ وہ حکومت کی آشیرباد کے بغیر کر سکتے تھے۔
یہ سچ ہے کہ ہم لوگ ہمیشہ آنے والے کو خوش آمدید کہتے ہیں اور جانے والے پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن اتنے سارے مخالفین کا اکٹھے ہو جانا معنی ضرور رکھتا ہے۔
چیف صاحب کے مخالفین میں وہ لوگ ہو سکتے ہیں جنہیں چیف کی بحالی کے بعد کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملا یا وہ جن پر چیف نے چڑھائی کی یا وہ جو جانے والوں پر کیچڑ اچھالنے کے عادی ہیں۔ چلیں تاریخ فیصلہ کرے گی کہ چیف نے جو کیا وہ سپریم کورٹ کیلیے یا اپنی ذات کیلیے۔
چیف تیرے مخالفین
کچھ کمین، کچھ ذہین