جنرل پرویز مشرف آج کل 2007 کی ایمرجنسی کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف سمیت ہر کوئی آج کل یہی واویلہ کر رہا ہے کہ ایمرجنسی کے نفاذ میں صرف اور صرف جنرل مشرف پر مقدمہ نہیں چلانا چاہیے بلکہ ان تمام عہدیداروں پر مقدمہ چلانا چاہیے جو پرویز مشرف کے ماتحت کام کر رہے تھے یعنی ملک کے وزیراعظم اور آرمی چیف وغیرہ وغیرہ۔
تاریخ میں ہمیشہ جب بھی کسی ادارے نے اچھا یا برا کام کیا ہے اس کی جزاوسزا صرف اور صرف اس ادارے کے سربراہ کو ہی ملی ہے۔ عمران خان کی کپتانی میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا اور کریڈٹ عمران خان کو ملا، پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ نواز شریف کو ملا، احمد رضا قصوری کے قتل میں بھٹو کو پھانسی دی گئی، پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی سزا شریف برادران کو جلاوطنی کی صورت میں ملی۔
اسی طرح کسی مہذب ملک میں اگر ریلوے کا بڑا حادثہ ہوتا ہے تو وزیر ریلوے مستعفی ہو جاتا ہے۔ اگر ملک میں احتجاج ہوتا ہے تو ملک کا سربراہ مستعفی ہوتا ہے۔ اسلیے پرویز مشرف کو بھی اپنے گناہوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے۔ انہوں نے مبشر لقمان کو انٹرویو میں جس طرح اپنے کئے ہوئے اقدامات کو نیک نیتی سے انجام دینے کی بات کی اور کہا کہ ان کے اقدامات سے اگر کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو وہ معافی چاہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں پرویز مشرف کو اپنے اس موقف پر ڈٹ جانا چاہیے اور اپنی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے تمام اچھے اور برے کاموں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیئے۔ یہی ایک کمانڈو کی شان ہوتی ہے اور ایک بہادر انسان کی روایت کہ وہ ہر اچھے برے کام اپنے ذمے لیتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف اب کمانڈو بن کر دکھاؤ، جنرل نیازی کی طرح ہتھیار ڈال کر شکست کی ذمہ داری دوسروں پر مت ڈالو۔