بینظیر کی میت پر ان کے شوہر نے انتخاب جیتا اور پورے پانچ سال ملک پر حکومت کی مگر وہ اپنی بیوی کے قاتل نہ تو تلاش کر1102054209-1 سکے اور نہ ہی عدالت سے مقدمے کا فیصلہ کرا سکے۔ اب اس فوٹو میں دیکھیں وہ بینظیر کی برسی پر ایسے ہنس رہے ہیں جیسے انہوں نے شکر کیا ہو کہ بینظیر شہید ہوئیں اور انہیں صدارت کے پانچ سال ملے۔
جو شوہر اپنی بیوی کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ اپنے دور حکومت میں نہ کرا سکے اس پر سب کو شک تو ہوگا ہی کہ کہیں وہی اپنی بیوی کا قاتل تو نہیں۔
موجودہ حکومت کی وعدہ خلافیاں بھی پی پی پی سے کم نہیں ہیں۔ نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران بہت سارے وعدوں میں ایک وعدہ بینظیر کے قاتل ڈھونڈنے کا کیا تھا۔ مگر وہ بھی دوسرے وعدوں کی طرح اس وعدے کو بھی بھول چکے ہیں۔
ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ زرداری اور اس کے بچوں کی کونسی ایسی مجبوری تھی جس نے انہیں بینظیر کے مقدمے کی پیروی کرنے سے روکے رکھا۔ بینظیر کا پوسٹ مارٹم انہوں نے نہیں کروایا، بینظیر کی شہادت کے مقام سے تمام شواہد کس نے مٹائے۔ بینظیر کی گاڑی کو کس نے دوسرے راستے کی طرف موڑا، کس نے بینظیر کو گاڑی سے سر باہر نکالنے کو کہا، کس نے بینظیر کی گاڑی کے اردگرد چند کارکنوں کو اکٹھا کیا اور وہ کون لوگ تھے جو دھماکے سے پہلے ہی وہاں سے بھاگ گئے۔ ان باتوں کا تعین کرنا پولیس کیلیے داہنے ہاتھ کا کھیل تھا۔ مگر چھ سال گزر جانے کے باوجود بینظیر کے مقدمے کا کوئی منہ سر ہی نظر نہیں آ رہا۔
بس لواحقین ہر سال بینظیر کی برسی مناتے ہیں، آپس میں ہنستے کھیلتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں اور پھر اگلی برسی تک انہیں بھول جاتے ہیں۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک دن وہ بھی اسی طرح دنیا چھوڑ جائیں گے اور لوگ ان کی قبر کیساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا کریں گے۔