یہ ایم کیو ایم کا مسئلہ رہا ہے کہ جب بھی الطاف بھائی نے اپنی تقریر میں کوئی متنازعہ بات کی اور اس کی سمجھ سب کو ایک ہی آئی تو بعد میں رابطہ کمیٹی صفائی پیش کرنے لگی کہ الطاف بھائی کے بیان کا غلط مطلب لیا گیا ہے اور ان کے بیان کو سیاق و اسباق سے ہٹ کر پڑھا گیا ہے۔ اس کے بعد رابطہ کمیٹی دو چار طاویلیں گھڑ کر ساری عوام کی گویائی کی حس کو مشکوک قرار دے دیتی ہے۔
اب سوچنے والی بات ہے کہ عوام کی اکثریت سچی ہے یا پھر رابطہ کمیٹی کے چند ارکان۔ بھئی غلطی ایک دفعہ ہوتی ہے بار بار نہیں۔ الطاف بھائی کو اب تک سمجھ جانا چاہیے کہ عوام کو ان کے بیانات کی الٹ سمجھ کیوں آتی ہے اور آئندہ کوشش کرنی چاہیے کہ تقریر سوچ سمجھ کر کریں۔ یا پھر رابطہ کمیٹی کو چاہیے کہ وہ الطاف بھائی کی طرف سے صفائی پیش کرنا بند کر دے اور الطاف بھائی کو خود جواب دینے دے۔ الطاف بھائی تقریر کے بعد خاموش ہیں مگر ان کے چمچے ان کے دفاع میں نکل پڑے ہیں۔
پتہ نہیں اتنی سمجھدار جماعت ہونے کے باوجود اس کے سربراہ اور ارکان کیوں اپنے بیانات کا دفاع نہیں کرتے بلکہ ہر طرف غلط فہمیاں پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔
ہماری نظر میں الگ ملک کا مطالبہ کرنا یا اس کی بات کرنا دونوں غداری کے زمرے میں آتے ہیں اور اس دفعہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ مجیب الرحمٰن کی طرح الطاف بھائی کو کھلا نہ چھوڑے بلکہ بڑی طاقتوں کی طرح برائی کو جڑ سے ہی پکڑ لے۔