ہمارا یہ یقین رہا ہے کہ ہم مسلمانوں کو قابو میں رکھنے کیلیے استعماری طاقتوں نے ہماری حکومتوں کے بیک اپ کے طور پر ہماری فوجوں سے گٹھ جوڑ کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے جب بھی کوئی سول حکومت قومی ترقی کے اقدامات کا سوچتی ہے یا پھر اسلامی مملکت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کرتی ہے تو استعماری طاقتیں ہماری فوج کا استعمال کرتے ہوئے اس کو برطرف کر دیتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال نائجیریا اور مصر پر فوجی حکومتیں ہیں۔
یہی کچھ پاکستان میں ہوتا آ رہا ہے۔ فوج حکومت کا تختہ الٹتی ہے تو پھر وہ یہ بھی نہیں دیکھتی کہ کوئی قائداعظم کی ہمشیرہ ہے، یا مذہبی سکالر ہے یا عوامی لیڈر ہے۔ وہ سب کو رگیدتی چلی جاتی ہے۔ خود وہ مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال دے، سیاچین سے بھارتی قبضہ نہ چھڑوا سکے یا پھر کارگل پر ہزاروں قربانیوں کے بعد ہزیمت اٹھا لے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی فوج نے فاطمہ جناح کو ذلیل کیا، بھٹو کو پھانسی چڑھایا، نواز شریف کو ملک بدر کیا، مولانا مودودی کو سزائے موت کا حکم سنوایا لیکن آج ان سب شخصیات کی باقیات اور خود موجودہ شخصیات پھر فوج کے گن گا رہی ہیں کیونکہ فوج ایک ایسی طاقت ہے جس کے آگے سب جھکتے ہیں۔
آج جو لوگ فوج کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں وہ یہ بات یاد رکھیں ایک دن یہی طاقت انہیں روندے گی اور انہیں بلبلانے بھی نہیں دے گی۔
اس مسئلے کا حل فوج کی تربیت میں تبدیلی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی فوج کی تربیت مغربی سلیبس کی بجائے اسلامی اصولوں پر کریں اور فوج کے جوانوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دیں کہ ان کا سپریم کمانڈر وزیراعظم یا صدر ہے چیف آف آرمی سٹاف نہیں۔
نوٹ: قارئین نوٹ کر لیں کہ ہمارا جیو کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔