نور دین جوانی میں ہی انگلینڈ چلا گیا اور پانچ پانچ سال بعد گھر کا چکر لگایا کرتا تھا۔ اس نے کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ بچوں کو سپانسر کرکے انگلینڈ بلالے۔ بڑے بیٹے نے اپنی کوششوں سے باہر جانے کی کئی کوششیں کیں اور آخرکار وہ سیٹ ہوگیا۔ بعد میں اس نے اپنے بھائی کو بھی بلا لیا۔ ہمارے ان لوگوں کیساتھ خاندانی تعلقات رہے ہیں اور دونوں بھائیوں کو ہم بہت نزدیک سے جانتے ہیں۔  آج ہم نے ان کی نجی زندگی کے ایک پہلو کو یہاں آشکار کرکے سبق آموز بنانے کی کوشش کی ہے۔

قادر اور حیدر دو بھائی ہیں۔ ایک بیرون ملک رہتا ہے اور دوسرا نو گیارہ کے بعد پاکستان واپس چلا گیا تھا کیونکہ وہ غیرقانونی طور پر رہ رہا تھا۔ دونوں بھائی باپ کے گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے میٹرک بھی نہ کرسکے۔  قادر نے سٹیزن شپ حاصل کرنے کے بعد حیدر کو سپانسر بھی کیا ہوا تھا۔

 دو سال قبل جب ہم قادر سے ملنے اس کے گھر گئے تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے کی شادی اپنے بھائی حیدر کی بڑي بیٹی کیساتھ کرنے والا ہے۔ اس کا بیٹا میڈیکل میں گریجوایشن کر رہا  تھا اور اچھے نمبروں سے پاس ہورہا تھا۔ بیٹے کا اردہ ڈاکٹر بننے کا تھا اور گھر والوں نے ابھی سے اسے ڈاکٹر بلانا شروع کردیا تھا۔ حیدر کی بیٹی نے ایف اے کے بعد نرسنگ میں داخلہ لیا ہوا تھا اور قادر کے گھر والے اسے بھی ڈاکٹریانی کہ کر بلانے لگے تھے۔

 پچھلے سال قادر فیملی پاکستان گئی اور انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی حیدر کی بیٹی سے کردی اورقادر کے بیٹے نے واپس آکر اپنی بیوی کو سپانسر بھی کردیا۔

آج جب ہماری بہن سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ قادر کے بیٹے کے دوسرے وزٹ کے دوران اس کی اپنے چچا کی فیملی کیساتھ خواتین کی غیبت کی عادت کی وجہ ان بن ہوگئی۔ قادر کی بہو نے ان بن کا ذہن پر اثر لیا اور اسی دوران اس کا حمل گر گیا۔ قادر فیملی نے اس کا الزام حیدر فیملی پر صرف لگایا ہی نہیں بلکہ پولیس میں رپورٹ بھی درج کرا دی۔ پولیس والے ایک آدھ دوفعہ حیدر کو پکڑنے اس کے گھر بھی آئے مگر کسی طرح وہ بچ گیا۔  اب حیدر کی بیٹی بھی اپنے والدین سے ناراض ہوچکی ہے اور اپنی پھوپھی کے گھر رہ رہی ہے۔

 قادر نے اپنے بھائی حیدر کی سپانسرشپ جس کی اب باری آچکی تھی پھاڑ دی ہے۔ اب دونوں بھائی ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے ہیں۔ یہ وہی بھائی ہیں جو کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کی بیٹي کی شادی نہیں ہورہی تو وہ چچا فضل کے گھر کرلے کیونکہ چچا فضل کا ایک بیٹا دو دفعہ طلاق دے چکا ہے۔ اب حیدرخود محلے والوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے۔

ہم لوگ اگر اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہماری اکثر لڑائیاں ایک دوسرے کیخلاف بات کرنے یعنی غیبت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ہرکوئی ایک دوسرے سے یہی پوچھتا پھرتا ہے کہ اس نے اس کی بات دوسرے شخص سے کیوں کی۔ یقین کریں اگر ہم غیبت ترک کردیں اور لگائی بجھائی سے توبہ کرلیں تو ہمارے معاشرے میں نااتفاقی نوے فیصد ختم ہوجائے۔ یہ زبان ہی ہے جو کہتی ہے ” تو مجھے منہ سے نکال میں تجھے گاؤں سے نکلوا دوں گی”۔ اسی زبان کے بارے میں حدیث شریف بھی ہے۔ نبی پاک صلعم نے فرمایا ” اگر انسان دو لبوں کے درمیان والی چیز اور دو رانوں کے درمیان والی چیز کی حفاظت کی ضمانت دے دے تو وہ اسے جنت کی ضمانت دے دیں گے”۔

ایک وقت تھا لوگ جب ملتے تھے پرانی یادیں یاد کرکرکے خوش ہوا کرتے تھے۔ فالتو وقت میں بورڈ گیم یا پھر تاش کھیلنا شروع کردیتے تھے۔ اب یہ وقت ہے کہ جب بھی دو اشخاص آپس میں ملیں گے وہ یا تو غیبت کررہے ہوں گے یا پھر اپنی مجبوریوں کا رونا رو کر ایک دوسرے سے ادھار مانگ رہے ہوں گے۔ اب ہم میں برداشت بالکل ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہم اتنے بے صبرے ہوچکے ہیں کہ غیبت خورے کی باتوں میں آکر خود بھی غیبت کرنے لگتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ غیبت الٹا ہمیں ہی نقصان پہنچا رہی ہے۔

ایک وہ وقت تھا جب ہمارے پورے محلے میں ایک آدھ گھر لڑائی کی وجہ سے مشہور ہوتا تھا ایک یہ وقت ہے جب پورے محلے میں ایک آدھ گھر آپس ميں اتفاق کی وجہ سے مشہور ہوتا ہے۔ ہم اکثر میڈیا کو اس تبدیلی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس نے اپنے ڈراموں اور فلموں میں امارت کو دکھا دکھا کر لوگوں کو مادہ پرست بنا دیا ہے۔