اسحاق ڈار کے پاس وزیرِ خزانہ کا قلمدان ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ ملکی بجٹ اور خزانے کی دیکھ بھال ایک فل ٹائم نوکری ہے۔ پتہ نہیں وزیراعظم نے کیا سوچ کر اپنے وزیرِ خزانہ کو انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کا صدر بنا دیا ہے۔ ہماری نظر میں اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ایک – وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے اسحاق ڈار کے پاس کچھ بھی کرنے کو نہیں ہے کیونکہ بجٹ وہ نہیں بلکہ آئی ایم ایف والے بناتے ہیں۔ اس لیے وزیراعظم نے ایک فارغ آدمی کو فل ٹائم نوکری دے دی ہے۔
دوئم – انتخابی اصلاحات کی کمیٹی دکھاوے کے طور پر بنائی گئی ہے اور اس دکھاوے کی کمیٹی کا سربراہ وزیرخزانہ کو بنا دیا گیا ہے کیونکہ کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے انہیں کچھ بھی نہیں کرنا ہو گا اور وہ خزانہ کا حساب کتاب فل ٹائم نوکری سمجھ کر کرتے رہیں گے۔
دونوں صورتوں میں نقصان ملک کا ہی ہے۔ اگر خزانہ کا کام تندہی سے نہ کیا تو پاکستانی عوام کو نقصان ہو گا اور آئی ایم ایف کو فائدہ۔ اگر انتخابی اصلاحات کمیٹی نے اپنا کام مکمل نہ کیا تو عوام پر ظالم قیادت مسلط رہے گی اور فائدہ ہو گا ان کو جن کے ہاتھوں میں ان ظالموں کی ڈوری ہے۔