جو ملک قرضے میں پاؤں سے سر تک ڈوبا ہوا ہو اس کا بجٹ بنیا یعنی آئی ایم ایف ہی بنائے گا۔ جب وزیرخزانہ بھی انہی کا سابقہ ملازم ہو تو پھر سوچیے کہ اس کا بجٹ کتنا عوامی ہو گا۔ 1625 ارب کے خسارے میں وزیراعظم فنڈ کیلیے 20 ارب روپے مختص کرنا، بینظیر سپورٹ کیلیے مزید رقم مختص کرنا اور سیکرٹریوں اور اسمبلی ممبران کی تنخواہیں ڈبل کرنا یہ عوام کیساتھ زیادتی ہے۔ اشیائے صرف کی کئی چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں، کئی خدمات پر مزید ٹیکس لگا دیا گیا ہے اور اس کے باوجود عوام کہتے ہیں کہ انہیں بجٹ سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ وہ تو معمول کی دیہاڑی لگا کر اپنا پیٹ پالتے رہیں گے۔
اگر حکومت خودغرض نہ ہوتی اور وہ ملک سے مخلص ہوتی تو مقروض ملک کے بادشاہ نے اپنے اخراجات صفر کئے ہوتے۔ حکومتی کروڑپتی کارندے اپنے ذاتی خرچ پر عوامی خدمات انجام دے رہے ہوتے۔ مگر چونکہ حکمرانوں کو پتہ ہے کہ عوام سوئی ہوئی ہے، حزب اختلاف فرینڈلی ہے اور یہ ان کی باری ہے، اس لیے وہ من مرضی کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے انفراسٹرکچر کے پروجیکٹ اسی لیے بنا رہے ہیں کہ ان میں کک بیک زیادہ ہے۔ میٹرو بس کا منصوبہ اچھا ہے مگر 55 ارب روپے کے منصوبے میں آپ خود حساب لگا لیں حنیف عباسی اور میاں برادران کی جیب میں کتنے روپے گئے ہوں گے؟
اگر حکومت عوام دوست بجٹ بناتی تو سب سے زیادہ رقم تعلیم اور صحت کیلیے مختص کرتی۔ جہاں قوم ہیپاٹائٹس سے مر رہی ہے وہاں صحت کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لعنت ہے ایسی حکومت پر اور ایسے بادشاہوں پر جو امیر ہونے کے باوجود مزید دولت اکٹھی کرنے کے چکر میں ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھاتے جا رہے ہیں۔