پاکستان نے ایٹمي کميشن کے اجلاس ميں ايران کے جوہري پروگرام کے متعلق ووٹنگ ميں اپنا ووٹ کاسٹ نہيں کيا۔ اس ماحول ميں يہ فيصلہ بھي غنيمت ہے وگرنہ ہم امريکہ کے کہنے پر ايران کے خلاف بھي ووٹ دے سکتے تھے۔ مگر اب ہماري حکومت کہ رہي ہے کہ ہم ايران کا معاملہ سيکيورٹي کونسل ميں لے جانے کے خلاف ہيں ليکن جب اصل ضرورت تھي تب ہم نے اس فيصلے کے خلاف ووٹ نہيں ديا۔ اب بھي وقت ہے کہ ايران کے جوہري پروگرام پر ايک ہي فيصلہ کيا جاۓ اور وہ ہے ايران کي حمائت جو ہم نہيں کريں گے کيونکہ ہم مسلم بلاک کي بجاۓ اميريکن اور جيوش بلاک ميں رہنا اپني عافيت سمجھتے ہيں۔
ويسے يہ اچھا موقع تھا ايران کا دل جيتنےکا کيونکہ اب تو بھارت نے بھي ايران کے جوہري پروگرام کي مخالفت کر دي ہے۔ مسلماني کا تقاضہ تو يہ ہے کہ ايران کي حمائت کي جاۓ اور خود غرضي کہتي ہے کہ خاموش رہ کر ايران کي بربادي کا تماشہ ديکھا جاۓ۔
اسي طرح ہم نے اسرائيل کےساتھ تعلقات بڑھانے کے دو جواز پيش کۓ تھے۔ ايک اسرائيل کا غزہ کا علاقہ خالي کرنا اور دوسرے فلسطيني مسلہ حل کرنے ميں مدد کرنا۔ مگر اب جب اسرائيل نے پھر فلسطينيوں کےخلاف جارحيت شروع کر دي ہے تو ہم خاموش ہيں۔ اگر ہمارا مقصد فلسطيني مسلہ حل کرنا تھا تو اب بات چيت کا وقت تھا۔ ہميں اب اسرائيل سے بات کر کے اس کو اس جارحيّت سے روکنا چاہۓ تھا کہ وہ فلسطينيوں کے خلاف ايکشن نہ لے اور ان کے گرفتار افراد کو رہا کر دے۔ مگر ہماري حکومت کہ رہي ہے کہ پاکستان اس معاملے ميں خاموش رہے گا کيونکہ يہ اسرائيل اور حماس کا اندروني معاملہ ہے۔
دوسري بات يہ ہے کہ اگر ہم نے اسرائيل کے غزہ خالي کرنے پر اس کے ساتھ تعلقات بڑھاۓ تو اب اسرائيل کي جارحيّت پر ان تعلقات پر شرمندہ ہوتے ہوۓ اسرائيل کے ساتھ مزيد بات چيت تب تک نہيں کرني چاہيۓ جب تک اسرائيل فلسطينيوں کا قتلِ عام بند نہيں کرديتا۔
ليکن سچ يہ ہے کہ پاکستان کي موجودہ حکومت نے اسرايئل کے ساتھ تعلقات ان وجوہات کي وجہ سے نہيں بڑھاۓہيں بلکہ اپني حکومت کے دور کو مزيد دو چار سال طولت دينے کيليۓ بڑھاۓ ہيں۔
بات وہيں پہ ختم ہوتي ہے کہ يہ دنيا عارضي ہے اور اس دنيا کي بجاۓ ہميں آخرت کي دنيا کي تياري کرني چاہيۓ۔ مگر يہ تياري تو وہي کرے گا جس کا آخرت پر ايمان ہو گا۔