یہ حکایت سب سے پہلے سابق (؟) صدرپاکستان اوراس پیری میں اپنے عزم سے جوانوں کو حوصلہ دینے والے جسٹس (ر) رفیق تارڑ کے ایک مضمون میں چھپی تھی، بعد میں عطاالحق قاسمی نے اسے کئی بار نقل کیا اور تقریبات میں بھی سنایا۔ 

 ایک طوطا اور طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا، وہ دم لینے کے لئے ایک ٹنڈ منڈ درخت کی شاخ پر بیٹھ گئے۔ طوطے نے طوطی سے کہا ”اس علاقے کی ویرانی دیکھ کر لگتا ہے کہ الوؤں نے یہاں بسیرا کیا ہوگا“ ساتھ والی شاخ پرایک الو بیٹھا تھا اس نے یہ سن کر اُڈاری ماری اور ان کے برابر میں آکر بیٹھ گیا۔ علیک سلیک کے بعد الو نے طوطا طوطی کو مخاطب کیا اور کہا ”آپ میرے علاقے میں آئے ہیں، میں ممنون ہوں گا اگر آپ آج رات کا کھانا میرے غریب خانے پر تناول فرمائیں“۔ اس جوڑے نے الو کی دعوت قبول کرلی رات کا کھانا کھانے اور پھر آرام کرنے کے بعد جب وہ صبح واپس جانے لگے توالو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور طوطے کو مخاطب کرکے کہا ”اسے کہاں لے کر جا رہے ہو، یہ میری بیوی ہے“ یہ سن کر طوطا پریشان ہوگیا اور بولا ”یہ تمہاری بیوی کیسے ہو سکتی ہے، یہ طوطی ہے تم الو ہو، تم زیادتی کر رہے ہو“ اس پرالو اپنے ایک وزیر باتدبیر کی طرح ٹھنڈے لہجے میں بولا ”ہمیں جھگڑنے کی ضرورت نہیں، عدالتیں کھل گئی ہوں گی۔ ہم وہاں چلتے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گی، ہمیں منظور ہوگا“ طوطے کو مجبوراً اس کے ساتھ جانا پڑا۔ جج نے دونوں طرف کے دلائل بہت تفصیل سے سنے اور آخر میں فیصلہ دیا کہ طوطی، طوطے کی نہیں، الو کی بیوی ہے۔ یہ سن کر طوطا روتاہوا ایک طرف کوچل دیا۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیاتھا کہ الو نے اسے آواز دی ”تنہا کہاں جا رہے ہو، اپنی بیوی تو لیتے جاؤ“۔ طوطے نے روتے ہوئے کہا ”یہ میری بیوی کہاں ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق اب یہ تمہاری بیوی ہے“ اس پر الونے شفقت سے طوطے کے کاندھے پرہاتھ رکھا اور کہا ”یہ میری نہیں، تمہاری ہی بیوی ہے، میں توتمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الوؤں کی وجہ سے ویران نہیں ہوتیں بلکہ اس وقت ویران ہوتی ہیں جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے“۔

آج جو ملک میں قحط کی سی صورتحال ہے یہ انہی بے ضرر عدالتوں کی مرہون منت ہے۔ جب سے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج عدالتوں میں بیٹھے ہیں نہ کوئی سوموٹو ایکشن لیا گیا ہے اور نہ ہی گمشدہ افراد کی برآمدگی میں پیش رفت ہوئی ہے۔

اگر آج جنرل مشرف کی ایمرجنسی کی بھینٹ چڑھنے والے جج عدالتوں میں ہوتے تو ضرور غریبوں کی خبرگیری کرتے اور ہوسکتا ہے آٹا، چینی اور گھی ذخیرہ کرنے والوں کو عدالتی کٹہرے میں لاکھڑا کرتے۔

ملک اس طرح کے کرائسزز کا شکار ہوتو سربراہان اپنا غیرملکی دورہ مختصر کرکے وطن واپس آجاتے ہیں اور ایک ہمارے صدر ہیں جو قوم کو قحط کی حالت میں چھوڑ کر غیرملکی دورے پر نکلنے والے ہیں اور وہ بھی کئی ملکوں میں بن بلائے جارہے ہیں۔

 یہ سچ ہے اگر عدالتیں مردہ ہوں تو بستیاں قحط کا شکار ہوجاتی ہیں اور حکمران یورپ پکنک منانے چلے جاتے ہیں۔