پچھلے کئی ماہ سے مسلم لیگ اور پاک فوج کیلیے صرف ایک ہی ٹارگٹ ہے اور ہے جنرل پرویز مشرف کو اگلے پانچ سال کیلیے انہی اسمبلیوں سے دوبارہ وردی سمیت صدر منتخب کروانا۔ رمضان کے مہینے میں آٹے کا بحران کوئی مسئلہ نہیں، کھجوروں کی مہنگائی کوئی مسئلہ نہیں، کراچی میں وکلاء کا قتل کوئی مسئلہ نہیں، فوجی جوانوں کی ہلاکتیں کوئی مسئلہ نہیں، شمالی علاقوں میں جنگ کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر مسئلہ ہے تو صرف جنرل مشرف کی صدارت کا۔ جنرل مشرف کیلیے سپریم کورٹ کے حکم کی بھی کوئی اہمیت نہیں، جنرل مشرف کیلیے قانون کی کوئی اہمیت نہیں۔ الیکشن کمیشن جب چاہے قانون کی شک تک معطل کرسکتا ہے۔ مسلم لیگ کے چمچے میڈیا پر الیکشن کمیشن کے اس غیرقانونی عمل کی ڈٹ کر حمایت کرتے ہیں۔ چوہدری پرویز الہی کے بقول جنرل پرویز مشرف کا باوردی صدر منتخب ہونا جمہوریت اور پاکستان کی بقا کیلیے لازمی ہے۔ چوہدری شجاعت تو صہبا مشرف کو صدارت کی امیدوار بنا کر سب سے بازی لے گئے ہیں۔

جو لوگ موجودہ بحران کی وجہ سے ملک ٹوٹنے کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں ہمیں ان سے اسلیے اتفاق نہیں ہے کہ ابھی تک صدارت کیلیے ایک ہی امیدوار میدان میں ہے۔ اگر 1971 کی طرح کرسی ایک اور امیدوار دو ہوتے تو ملک ٹوٹنے کے امکانات تھے۔

کل ایک افطار پارٹی میں پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک باریش پابند صلوۃ نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ جب جنرل پرویز مشرف کی بات چھڑی تو انہوں نے جنرل مشرف سے اپنی ملاقات کی رودار سنائی۔ کہنے لگے جب وہ امریکہ واپس آرہے تھے تو اسی جہاز میں جنرل صاحب بھی حج اکبر کیلیے امریکہ آرہے تھے۔ دوران سفر اعلان ہوا کہ جنرل صدر مشرف اکانومی کلاس میں مسافروں سے ملنے آرہے ہیں اور ان سے سب لوگ تمیز سے پیش آئیں۔ جب جنرل مشرف ان کی سیٹ کے پاس آکر رکے تو نوجوان نے کوئی حرکت نہ کی۔ ان کے درمیان کچھ اس طرح کا مکالمہ ہوا۔

جنرل مشرف “نوجوان تم میری تکریم کی خاطر میرے ساتھ ہاتھ نہیں ملاؤ گے؟

نوجوان “مجھ سے عمر میں بڑے ہونے کے ناطے میں ہاتھ ملا لیتا ہوں مگر جو حشر آپ نے پاکستان کے قانون کا کیا ہے اس کی وجہ سے آپ سے ہاتھ ملانے کی میراضمیر اجازت نہیں دیتا”

یہ سنتے ہی دوسرے مسافر دنگ رہ گئے اور جنرل مشرف صاحب کھسیانی سی ہنسی ہنس کر آگے بڑھ گئے۔ بعد میں ان کیساتھ بیٹھے مسافر نے لقمہ دیا “خدا کا شکر کرو یہ جہاز امریکہ جارہا ہے۔ اگر یہ جہاز پاکستان جارہا ہوتا تو تم ایئرپورٹ پر ہی غائب کردیے جاتے اور اگلے دن گوانٹاناموبے کے کسی پنجرے میں دھوپ سینک رہے ہوتے”۔

یہ واقعہ سن کر تمام اصحاب نے یک زبان کہا کہ اس طرح کی جرات انکار جب تک سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں اور عام پبلک میں نہیں آئے گی جنرل پرویز کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔