پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اس قدر غیریقینی ہے کہ ہر کوئی اندازوں سے کام چلانے کی کوشش کررہا ہے۔ نہ حکمران کسی ایک حکمت عملی کا اعلان کر پائے ہیں اور نہ حزب اختلاف کسی ایک پلان پر متفق ہو پائی ہے۔ ہر وزیر اپنی ذاتی رائے سے کام چلا رہا ہے اور کوئی بھی حکومتی موقف پیش نہیں کررہا۔ حتیٰ کہ ہمارے جنرل صدر محترم بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

 چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ٹی وی پر قوم کے سامنے آتے اور ہمیشہ کی طرح کھل کر اپنا لائحہ عمل واضح کرتے مگر لگتا ہے جنرل صاحب کو اس وقت کوئی انجانا سا خوف گھیرے ہوئے ہے اور وہ خود ابھی تک طے نہیں کرپائے کہ کیا کرنا ہے۔

 یا پھر وہ جانتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور بس حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ شاید وہ یہ چاہتے ہوں گے کہ قوم کچھ عرصے کیلیے انہی بھول بھلیوں میں کھوئی رہے اور وہ چپکے سے اپنے پلان کو عملی جامہ پہنا لیں۔

آئیں اس غیریقینی کی صورتحال میں ہم بھی قیاس آرائیاں کریں۔ اگر ان میں سے چند ایک بھی سچ ثابت ہوگئیں تو ہم بھی مستقبل میں ان کے حوالے دیتے نہیں تھکیں گے یعنی یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہماری پہنچ بہت دور تک ہے۔

1۔ مولانا فضل الرحمان عین وقت پر ایم ایم اے اور اے پی ڈی ایم کودھوکہ دے جائیں گے۔

2۔ صدر مشرف اگلے پانچ سال کیلیے صدر چن لیے جائیں گے اور عوام ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔

3۔ مہنگائی کی کسی کو فکر نہیں ہوگی اور حکمران اسی مہنگائی میں سے اپنی خیر کی راہ نکال لیں گے۔

4۔ شوکت عزیز وزارت عظمیٰ چھوڑ کر امریکہ واپس چلے جائیں گے۔

5۔ عمران خان کی تحریک انصاف اگلے انتخابات میں بھی صرف ایک ہی سیٹ  جیت پائے گی۔

6۔ ڈاکٹرشیرافگن اگلی حکومت میں بھی موجود ہوں گے۔

7۔ عدلیہ پھر سے انتظامیہ کے زیر اثر آجائے گی اور وکلاء اس میں دوبارہ روح نہیں پھونک سکیں گے۔

8۔ چوہدریوں کے پاس وزیر اعظم بینظیر کی حکومت میں شمولیت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

9۔ بینظیر کی حکومت بھی نواز شریف فیملی کو وطن واپس نہیں آنے دے گی۔

10۔ سپریم کورٹ جنرل مشرف کے حق میں فیصلہ دے دے گی مگر انہیں مشورہ دے گی کہ وہ اگلی اسمبلیوں سے اپنے آپ کو منتخب کروائیں۔

11۔ شیخ رشيد کی قیاس آرائیاں جاری رہیں گی اور وہ عوام کو مستقبل  سے ڈراتے رہیں گے۔

12۔ فوج کا عمل دخل حکومت میں پہلے سے بھی بڑھ جائے گا اور اس کی گرفت پاکستانی معیشت پر مضبوط ہوتی جائے گی۔

13۔ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت تعلیم کیطرف کوئی بھی دھیان نہیں دے گا۔

14۔ لال مسجد دوبارہ مولانا عبدالعزیز کے حامیوں کے سپرد کردی جائے گی۔

15۔ حکومت سے باہر ہونے والوں کو نیب خوب تنگ کرتی رہے گی۔

16۔ وکلاء تحریک کے لیڈر سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوکر اگلے الیکشن میں حصہ لیں گے۔

17۔ بجلی کا بحران بڑھتا رہے گا

18۔ عوامی شعور میں پختگی آتی جائے گی اور میڈیا ان کو اپنے حقوق سے آگاہی کیلے بہت بڑا کردار ادا کرے گا۔

19۔ نواز شریف کا خاندان دس سال کی جلاوطنی کے بعد واپس آتے ہی نیب کی زد میں دوبارہ آجائے گا۔

20۔ ایم کیو ایم اپنی ذہانت کی وجہ سے اگلی حکومت کو بھی مجبور کردے گی کہ وہ اسے اقتدار میں مناسب حصہ دے۔

21۔ کراچی کا ٹریفک کا نظام اور بجلی کا بحران کوئی بھی حل نہیں کرسکے گا۔