کافی عرصے بعد ایک ساتھ کچھ اچھی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملی ہیں جن سے امید جاگ اٹھی ہے کہ پاکستان میں ابھی بھی لوگ اپنے وعدوں پر کاربند رہ سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وعدوں پر عمل کسی اور سازش کا پیش خیمہ نہ ہو لیکن ہم تو اس وقت نیک گمان کے موڈ میں ہیں اور سب اچھا ہونے کی امید لگا بیٹھے ہیں۔

سپریم کورٹ نے لال مسجد کو کھولنے اور مدرسہ حفصہ کی جگہ پر دوبارہ مدرسہ کی عمارت  ایک سال میں تعمیرکرنےکا حکم جاری کیا ہے۔ اس کیساتھ ہی اس سانحے میں ملوث لوگوں پر مقدمہ چلانے کا بھی حکم دیا ہے۔ اب پتہ نہیں مقدمہ چلانے والے حکم پر کس حد تک پیروی ہوتی ہے کیونکہ لال مسجد کے سانحے میں فوج ہی سب سے آگے آگے تھی۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ جب حکومت لال مسجد کھولنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو اس نے سپریم کورٹ سے درپردہ مدد مانگ لی۔ کیونکہ حکومت کو خدشہ تھا کہ وہ جب بھی دوبارہ مسجد کھولے گی مسجد کے سابقہ طلبا اس پر قبضہ کرلیں گے۔ اب ہوسکتا ہے سپریم کورٹ کا حکم طلبا بھی مان لیں اور ایک غیرجانبدار خطیب کی تعیناتی پر راضی ہوجائیں۔ لیکن دوسری طرف سانحے کے ذمہ داروں پر مقدمے کی بات ہمارے قیاس کو رد کرتی ہے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مقدمہ کسی خاص شخص کے خلاف قائم نہ کیا جائے اور اسے مبہم رکھ کر لٹکا دیا جائے۔ سپریم کورٹ کی نیت جو بھی ہو اس نے لال مسجد کو کھول کر اہل محلہ کے جذبات کی قدر کی ہے۔

ہمارے اندازے کیخلاف آج اے پی ڈی ایم نے ایم ایم اے سمیت اپنے استعفے اسمبلیوں میں جمع کرادیے۔ بیشک یہ بات سچ ہےکہ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے چند ہفتے قبل استعفے جمع کراکے حزب اختلاف نے کوئ خاص معرکہ سرانجام نہیں دیا مگر چیف آف آرمی سٹاف کے صدر کا الیکشن لڑنے پر اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کرایا ہے۔ اب اگر سرحد اسمبلی بھی صدارتی انتخاب سے قبل تحلیل کردی گئی تو ہم ایم ایم اے کی نیت پر شک نہیں کریں۔ اگر سرحد اسمبلی تحلیل نہ ہوئی تو ہم استعفوں کومولانا فضل الرحمان کا دوغلہ پن قرار دیں گے۔ اس طرح استعفے دے کر وہ عوام کی نظروں میں سرخرو بھی ہوجائیں گے اور سرحد اسمبلی تحلیل نہ کرکے صدر کے الیکشن کو کالعدم ہونے سے بچانے کی بھی کوشش کریں گے۔

جنرل مشرف نے فوج میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کو وائس چیف آف آرمی سٹاف بنا کر شاید یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ صدارتی انتخاب کے بعد وردی اتار دیں گے۔ موجودہ حالات میں جنرل مشرف کے اس اقدام کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی۔اس تعیناتی سے کم از کم یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ اگلی حکومت غیرفوجی ہوگی۔ ہم جانتے ہیں کہ سیکیورٹی کونسل میں فوج کی نمائندگی اور جنرل مشرف کے صدر برقرار رہنے سے فوج کا عمل دخل جاری رہے گا مگر جمہوریت کی طرف یہ پیش رفت پھر بھی باوردی سربراہ مملکت سے سو درجے بہتر ہے۔

اب ہم امید کرسکتے ہیں کہ حکومت انتخابات کرانے میں مخلص ہے اور یہ انتخابات صاف شفاف بھی ہوں گے کیونکہ فوج کی چھتری مسلم لیگ ق پر نہیں ہوگی اور دوسری سیاسی پارٹیاں کھل کر انتخابات میں حصہ لیں گی۔ میڈیا کی آزادی بھی انتجابات کے صاف شفاف ہونے میں اہم کردار ادا کرے گی اور اس دفعہ شاید جھرلو مارنے کی روایت ٹوٹ جائے۔

ایک خبر یہ بھی ہے کہ حکومت کی پی پی پی کیساتھ ڈيل فائنل ہونے والی ہے اور اگلے چوبیس گھنٹے میں اہم اعلان متوقع ہے۔ اس ڈیل کیمطابق بینظیر کے سارے مقدمے ختم کردیئے جائیں گے اور اس طرح پی پی پی کو استعفے دینے سے باز رکھا جائے گا۔ یہ وہی جنرل مشرف ہیں جو ایک آرڈینینس سے بینظیر کے سارے مقدمات خارج کرکے بقول ان کے ملکی لوٹی ہوئی دولت کو تحفظ فراہم کردیں گے۔ وہ بینظیر جو پہلے کرپٹ تھی اب ان کی پارٹنر بن جائے گی۔ جنرل صاحب نے ڈیل کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا کہ عام آدمی ان کے بارے میں یہ کہ سکتا ہے کہ کرپٹ کا پارٹنر بھی کرپٹ ہوتا ہے۔

اب حکومت سے بھی نیک گمان رکھنا چاہیے کہ وہ کم از کم صدارتی انتخاب کے بعد نواز شریف کو وطن واپس آنے کی اجازت دے دے گی۔ صدارتی الیکشن کی بات کرکے ہم اسے جائز قرار نہیں دے رہے بلکہ ہونی سے چند نیک خواہشات اخذ کررہے ہیں۔ کیونکہ ہمیں یہ امید کم ہی ہے کہ سپریم کورٹ صدارتی الیکشن کیخلاف سٹے آرڈر دے دے۔ اگر موجودہ حالات جمہوریت کی طرف چلنے لگے ہیں تو صدر مشرف باوردی صدر سے سو درجہ بہتر ہوں گے۔ ہو سکتا ہے آنے والی اسمبلی سول صدر کے اختیارات کو کم کرنے کا بل دوبارہ پاس کرانے میں کامیاب ہوجائے۔

حالات واقعی جنرل مشرف کیلیے سازگار نہیں ہیں اور وقت کیساتھ ساتھ جنرل مشرف پاکستانی سیاسیت میں الجھتے ہی جائیں گے۔ آئیں ہم سب اب جنرل مشرف کیساتھ آئندہ پیش آنے والے واقعات کا انتظار کریں اور دیکھیں کہ وہ وردی کے بغیر سیاسی جیلنجوں سے کس طرح نبردآزما ہوں گے۔