آج کشمیر اور سرحد کے قیامت خیز زلزلے کی دوسری سالگرہ ہے۔ اس دن پاکستانی قوم نے یکجہتی کا مظاہرہ کرنے ہوئے جس طرح زلزلہ زدگان کی امداد کی وہ تاریخ کا حصہ ہے مگر حکومت اور میڈیا نے زلزلے کی دوسری سالگرہ پر نہ تو قوم کی اس کی انتھک محنت کی یاد شان سے منائی اور نہ زلزلہ زدگان کی بحالی کی پروگریس دکھائی۔ صدر اور وزیراعظم نے تقریبات میں شرکت کی اور گھروں کو چلے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت زلزلہ زدگان کی بحالی کی دوسالہ کاکردگی عوام کے سامنے پیش کرتی اور میڈیا بھی ان علاقوںکی موجودہ صورتحال پر رپورٹس دکھاتا۔

۔ اگر حکومت نے ایسا نہیں کیا تو اس سے ان خدشات کو تقویت پہنچتی ہے کہ زلزلہ زدگان کی بحالی کا کام دو سال بعد بھی مکمل نہیں ہوا اور اس کاروبار میں پیسہ بنانے والے نہیں چاہتے کہ ان کے کارناموں سے قوم آگاہ ہو۔ ویسے غیرجانبدار مبصرین حکومت کی پروگریس سے خوش نہیں ہیں اور ان کے خیال میں دوسال بعد بھی ہزاروں متاثرین کھلے آسمان تلے راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔ جو لوگ ابھی تک اپنے گھروں کو واپس جاچکے ہیں ان کی اکثریت نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گھر دوبارہ بنائے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اخبارات اس پر زمیمے شائع کرتے اور ٹی وی چینلز آج کا دن زلزلہ زدگان کیلیے وقت کردیتے ۔ اس طرح بحالی کی کوششوں کو عوام کے سامنے پیش کرکے حکومت کے احتساب کا موقع فراہم کیا جاتا۔ مگر موجودہ سیاسی حالات کی تبدیلی نے زلزلہ زدگان کو بھلا کر رکھ دیا ہے۔ ہرطرف جنرل پرویز مشرف کی کامیابی، مصالحتی آرڈینینس اور ایم ایم کی توڑ پھوڑ کا چرچا ہے۔ میڈیا بھی انہی موضوعات کو زیربحث لارہا ہے۔ مسلم لیگ اور ایم کیو ایم بھی جنرل مشرف کی کامیابی پر جشن منانے کے بعد اب مصالحتی آرڈینینس کی صفائی پیش کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔

یہ ہم لوگوں کی اجتماعی کمزوری ہے کہ ہم ایک کام کو زور و شور سے شروع کرتے ہیں اور پھر اسے ادھورا چھوڑ کر اپنے ذاتی کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ آج نہ لوگ حکومت سے حساب مانگ رہے ہیں اور نہ حکومت خود بخود حساب دینے کو تیار ہے۔ نہ ہی میڈیا نے حکومت کو اس طرح آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی ہے جس طرح اس نے مصالحتی آرڈینینس اور جنرل مشرف کو وردی میں صدارتی انتخاب لڑانے پر آڑے ہاتھوں لیا۔