کسی نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے

میں نے تو یونہی خاک میں پھیری تھی انگلیاں

دیکھا   جو غور  سے  تیری  تصویر  بن  گئی

اس شعر کی طرح ہمارا بھی آج یونہی لکھنے کا ارادہ بنا ہے کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ مایوسی اور ڈیپریشن میں کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا اور آدمی یونہی ادھر ادھر جھک مار کر وقت گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج ہمارا بھی ادھر ادھر کی باتیں کرکے اپنا ڈیپریشن کم کرنے کا ارادہ ہے خدا کرے کہ اس طرح ڈیریشن کم ہوجائے اور شاید اسی طرح آج کی تحریر لکھی جائے۔

جب سے ایمرجنسی کا نفاذ ہوا ہے یعنی بنیادی حقوق معطل ہوئے ہیں ہم سخت ڈیرپشن کا شکار ہیں۔ کبھی دل کرتا ہے اپنا سر پھاڑ لیں یا لمبے عرصے کیلیے خاموش ہوجائیں۔ اس ڈیریشن سے نکلنے کا ایک طریقہ خود کو مصروف رکھنے کا ہے سو وہ ہم کررہے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں کہ قانون معطل ہے مگر کاروبار حکومت قانون کے مطابق چلتا رہے گا۔ ہے ناں مزے کی بات؟

ایک طرف سپریم کورٹ پر دہشت گرد چھوڑنے کا الزام لگایا گیا تو دوسری طرف کل دو سو فوجیوں کے بدلے پچیس دہشت گرد رہا کردیے گیے۔ ہوسکتا ہے سپریم کورٹ کو یہ باور کرایا گیا ہو کہ اس نے دہشت گرد فوجیوں کے بدلے چھوڑنے کی بجائے مفت کیوں چھوڑ دیے۔ ہے ناں دوغلی پالیسی

لال مسجد کھلوانے کا الزام سپریم کورٹ پر لگاتےوقت یہ بھی نہیں سوچا کہ فیصلہ سنانے والے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ ہے ناں اچھنبے کی بات؟

کیا وکلا کے علاوہ دوسرے طبقے ایمرجنسی سے بالکل متاثر نہیں ہوئے یعنی کیا دوسرے طبقے یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ ایمرجنسی سے ان کے مسائل حال ہوجائیں گے۔ یعنی مہنگائی ختم ہوجائے گی، انصاف کی فراہمی جلد ملنے لگے گی، رشوت اور سفارش ختم ہوجائے گی، ملاوٹ اور چور بازاری سے جان چھوٹ جائے گی، موبائل فون چھننے کی وارداتوں میں کمی آجائے گی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دوسرے طبقے خاموش کیوں ہیں؟ اپنی سمجھ سے تو باہر ہے۔

ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد جنرل مشرف کے پاس بہترین موقع ہے ان کاموں کے مکمل کرنے کا جو سیاستدانوں کی مخالفت یا آپس ميں لڑائی کی وجہ سے معرض التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا کام کالاباغ ڈیم کی تعمیر ہے۔ قرض نادہنگان سے قرض کی وصولی ہے، بجلی کے بحران کا خاتمہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیا اب جنرل صاحب ان منصوبوں کو مکمل کرسکتے ہیں؟

اب ہمیں سمجھ میں آیا ہے کہ مصر، شام، اردن اور دوسرے اسلامی ملکوں میں ڈکٹیٹرشب کیوں ہے۔ ظاہر ہے جب پاکستانیوں کی طرح ان ملکوں کے لوگ بھی یہی سوچ کر کچھ نہیں کررہے ہوں گے کہ حکومتوں کے بدلنے سے ان کی تقدیر نہیں بدلے گی۔ وہ کل بھی محنت مزدوری کرکے بیوی بچوں کا پیٹ پال رہے تھے اور آج بھی یہی کررہے ہیں۔ اب ہمیں یہ بھی سمجھ میں آ چکا ہے کہ کروڑوں انسانوں پر حکومت کرنا کتنا آسان ہے۔ بس انہیں بےحسی، مایوسی، ڈیرریشن میں مبتلا کردو اور حکومت کرتے رہو۔

جب آدمی خدا کے اس پیغام “خدا نے اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو” کو بھلا کر سب کچھ خدا پر چھوڑ دے تو پھر وہ بیکار ہوجاتا ہے۔ اس حال میں کروڑوں انسانوں کو پہنچانے کی ذمہ ہماری گدیوں نے اٹھا رکھی ہے جو اپنے مریدوں کو یہ کر تسلی دیتے رہتے ہیں کہ انہوں نے دعا کردی ہے اب ان کا کام ہوجائے گا اور اگر کام نہ ہو تو یہ کہتے ہیں کہ خدا کی منشاء ہی نہیں تھی۔ اس طرح انسان یہ یقین کر بیٹھتا ہے کہ جب اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے تو پھر وہ حرکت کیوں کرے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت اسلامی کے لاکھوں کے اجتماع پر بھی ایمرجنسی کا کوئی اثر نہیں ہوا اور ان کا اجتماع جاری ہے۔ اگر دعوت اسلامی چاہتی تو اس ہجوم کو اسلام آباد پر یلغار کا حکم دے کر کایا پلٹ دیتی مگر نہیں ہم خدا کی عبادت پر لوگوں کو لگا کر سمجھتےہیں کہ جنت کی چابی حاصل کرلی۔

جنرل صاحب کو مبارک ہو کہ انہیں بنی بنائی تیار شدہ ایسی قوم ملی ہے جس کا خود اعمتادی پر سے یقین اٹھ چکا ہے جو یہ یقین رکھتی ہے کہ محنت کی بجائے رشوت اور سفارش کامیابی کا زینہ ہے۔ جس کی مایوسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ دم سادھے کسی معجزے کا انتظار کرتی رہتی ہے۔