کل ہم آری ٹی وی پر وکلاء پر پولیس تشدد ہوتے دیکھ نہ پائے اور ہم نے آنکھیں موند لیں۔ آنکھیں بند کرنے کی دیر تھی کہ ہم تصوراتی فرشتے کے پروں پر سوار ہو کر ایک نئی دنیا میں پہنچ گئے۔خوابوں کی دنیا

تصوراتی دنیا میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے اپنے قاضی کو معزول کرکے ملک میں تمام بنیادی حقوق معطل کردیے۔

 دراصل قاضی کی عدالت میں بادشاہ کیخلاف ایک مقعمہ چل رہا تھا اور بادشاہ اور اس کے وزراء کو مخبر نے اطلاع دی کہ قاضی فیصلہ بادشاہ کیخلاف دینے والا ہے اسلیے بادشاہ نے اس قاضی القضاة کو برطرف کرکے اپنی مرضی کا قاضی مقرر کردیا۔ دراصل ملک کے قانون کیمطابق اگر قاضی بادشاہ کیخلاف فیصلہ دیتا تو بادشاہ کو تخت سے دستبردار ہونا پڑتا۔ جس دن نئے قاضی القضاة نے بادشاہ کے حق میں فصلہ دینا تھا سپہ سالار نے بادشاہ کیخلاف بغاوت کردی اور تخت پر قبضہ کرلیا۔ سپہ سالار سیانا نکلا اور اس نے خود بادشاہ بننے کی بجائے بادشاہ کے ایک نہایت ایماندار بیٹے کو نیا بادشاہ بنا کر تخت پر بٹھا دیا۔ ایماندار بیٹے نے معزول شدہ قاضی القضاة کو بحال کیا اور اپنے باپ کیخلاف مقدمے کی کاروائی دوبارہ شروع کرا دی۔ قاضی نے مصدقہ گواہوں کی موجودگی میں سابق بادشاہ کو مجرم قرار دیا۔  بادشاہ نے باپ کو ملک کیساتھ غداری کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا۔

پھانسی پر لٹکے بادشاہ کو دیکھ کر ہمارے جسم نے خوف سے جھرجھری لی اور ہماری آنکھ کھل گئی۔ ہم نے کیا دیکھا کہ آری ٹی پر ایک اور خبر نشر ہورہی تھی۔ خبریں پڑھنے والا بتا رہا تھا

 “سپریم کورٹ کے فل بینچ نے سات رکنی بینچ کا ایمرجنسی کو خلاف قانون قرار دینے کا آرڈرغیرقانونی قرار دے دیا”

ججوں نے جواز یہ دیا  “کیونکہ یہ فیصلہ اس وقت آیا جب جنرل مشرف ملک میں ایمرجنسی لگا کر نئے پی سی او کے تحت حلف اٹھا نے کا حکم جاری کرچکے تھے اور چونکہ جن ججوں نے آرڈر جاری کیا تھا وہ ابھی تک نئے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھا پائے تھے اسلیے ان کے آرڈر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے”۔

خبر کا ہم نے اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے ابھی ابتدائی حصہ ہی دیکھا تھا اور ہم نے تصور کرلیا کہ خبر کچھ اسطرح نشر ہورہی ہے

 ” سپریم کورٹ کے فل بینچ نے جنرل مشرف کے ایمرجنسی کے نفاذ کو غیرقانونی قرار دے دیا”

 ایک دفعہ تو ہمارا ماتھا ٹھنکا لیکن جب ہم پورے ہوش میں آ گئے اور ہم نے پوری خبر دیکھی تو معلوم ہوا کہ ہم تصوراتی دنیا میں بھٹک رہے تھے۔ دراصل حقیقی دنیا میں اس طرح کی کوئی بادشاہت نہیں ہے جہاں ملک کیساتھ غداری پر بادشاہ کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے بلکہ غدار کو عالمی لیڈر قرار دے کر رعایا مزید حکومت کرتے دیکھتی رہتی ہے اور اس کے مرنے پر اسے اعزاز کیساتھ دفن کرکے اس کا عالیشان مقبرہ بنا دیتی ہے۔ آج کی مسلمان اشرافیہ اور سپہ سالاروں میں اتنی ہمت ہی نہیں ہے کہ وہ اصولوں کو پامال ہونے سے بچائیں اور عوام سے ان کے حقوق چھیننے والے کو قرار واقعی سزا دیں۔