آپ سب نے يہ خبر پڑھ لي ہوگي کہ جب موجودہ عراقي حکومت کو شک گزرا کہ وہ ريفرنڈم نہيں جيت سکے گي تو اس کي پارليمنٹ نے موجودہ قانوں ميں تبديلي کي منظوري اکثريت کے ساتھ دے دي۔ اس کے بعد جب يو اين او اور سنّيوں نے آواز اٹھائي تو اس تبديلي کو واپس پہلے قانون ميں بدلنے کيلۓ عراقي حکومت نے پارليمنٹ کا پھر اجلاس طلب کيا اور پارليمنٹ نے اکثريت سے اس تبديلي کو اگلے دن ہي واپس لے ليا۔
يہ ہے ہم مسلمانوں کي کارستانياں جن سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم خود سے کچھ نہيں کرتے بلکہ دوسروں کے اشاروں پر چل رہے ہوتے ہيں۔ بڑے بڑے قانون بنتے اور بگڑتے ديکھے ہيں مگر اتني جلد بازي پہلے کبھي نہيں ديکھي۔ اگر گينس بک آف ورلڈ ريکارڈ چاہے تو اس کو اپني بک ميں جگہ دے سکتي ہے۔
يہي حال قانوں کا پاکستان ميں ہو رہا ہے اور آگے بھي ايسا ہي خدشہ ہے۔ حکمران قانوں کو جب چاہيں گے بدل ديں گے۔ سننے ميں آرہا ہے کہ جب صدر مشرف کو يقين ہو گيا کہ وہ اگلا اليکشن نہيں جيت سکيں گے يا اگلا اليکشن ہار گۓہيں تو پھر اسمبلي سے نظامِ حکومت ہي تبديل کرا ليں گے۔ اس طرح سارے اجتيارات صدر کے پاس چلے جائيں گے اور صدر براہِ راست اليکشن سے منتخب ہو جائيں گے۔ ليکن ہمارا خيال ہے کہ اس سے پہلے صدر بلدياتي نمائيندوں سے کام چلانے کي بھي کوشش کريں گے۔ اگر وہ کوشش ناکام ہوئي تو پھر صدارتي نظام نافز کر ديں گے۔
مگر کب تک ۔ ہر ظلم کي انتہا ہوتي ہے اور اگر حزبِ اختلاف کو اس حد تک دبايا گيا تو پھر نہ جتم ہونے والا احتجاج بھي شروع ہو سکتا ہے۔ جيسا کہ سب لوگ کہ رہے ہيں کہ حکومت کيلۓ يہي بہتر ہے کہ وہ آئيندہ انتخابات ميں بلدياتي اليکشن کي طرح جھرلو پھيرنے کي کوشش نہ کرے اور صاف شفاف انتخابات کراۓ۔ اور اگر حکومت نے پھر دھاندلا کرنے کي کوشش کي تو حالات بگڑ بھي سکتے ہيں۔