اپنی دوبارہ جلاوطنی سے قبل پچھلے دنوں جب نواز شریف سیاسی افق پر چھائے ہوئے تھے اور ان کے پہ در پہ انٹرویو نیوز چینل پر نشر ہو رہے تھے اس وقت ہم نے ایک بات نوٹ کی کہ وہ اینکرمین کے سوال کا جواب دینے کی بجائے الٹا اس پر سوال داغ دیتے اور کہتے کہ آپ بتائیں کہ آپ کیا کرتے؟

یہ تکیہ کلام ہر سیاستدان کا ہے جو اپنے انٹرویو میں جواب نہ بننے کی صورت میں استعمال کرتا ہے یا پھر انٹرویو کرنے والے کو ہم خیال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ انڑویو کرنے والا جواب نہیں دے گا یا کم از کم جواب دے کر شرمندہ نہیں کرے گا اور اس کی اسی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ سوال پوچھ لیتے ہیں۔

کبھی کبھی سیاستدان انٹرویو کرنے والے سے تائید کیلیے بھی پوچھ لیتا ہے کہ آپ بتائیں کیا ملک میں ایسا نہیں ہورہا۔ ان دو چالوں کی وجہ سیاستدان کو سوچنے کیلیے تھوڑا وقت بھی مل جاتا ہے یا پھر وہ سوال کو گول کرجاتا ہے۔

ابھی کل کی پریس کانفرنس میں جنرل مشرف نے بھی اسی طرح کا سوال میڈیا پر داغ دیا۔ جب ان سے چیف جسٹس کو ہٹانے کے بارے میںپوچھا گیا تو انہوں نے الٹا مغربی نامہ نگاروں سے پوچھ لیا کہ آپ بتائیں اگر آپ کے ملک میں ایسی صورتحال ہوتی تو آپ کیا کرتے؟ جنرل صاحب کو یہ معلوم تھا کہ ساری دنیا چیف جسٹس سمیت ججوں کو ہٹائے جانے پر ناخوش ہے مگر چونکہ انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ مغربی نامہ نگار اس کانفرنس میں ان کے آگے نہیں بولیں گے اسلیے انہوں نے بے دھڑک ایک غلط استددلال کی تائید مانگ لی۔

 اب اگر مغربی نامہ نگار ان کو یہ جواب دیے دیتے کہ “ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ مغرب حضرت علی رحمتہ کے اس قول سے واقف ہے کہ معاشرہ ظلم ہونے کے باوجود زندہ رہ سکتا ہے مگر انصاف کے بناں نہیں” تو پھر ان کی کیا عزت رہ جاتی۔

ہمارے خیال میں وہ وقت بھی آنے والا ہے جب انٹرویو کرنے والوں کی طرح پریس کانفرنس میں بھی نامہ نگار سیاستدان کو شرمندہ کرنا شروع کردیں گے اور اس کے بعد یا تو سیاستدان یہ سوال کرنا چھوڑ دیں گے یا پھر منہ کی کھایا کریں گے۔

اسی طرح جنرل مشرف نے ایمرجنسی لگانے، سپریم کورٹ کے ججوں کو ہٹانے اور میڈیا پر پابندی کے احکامات کو اپنے دلائل سے میڈیا سمیت کسی کو قائل تو نہیں کرسکے مگر اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا تے ہوئے انہوں نے گونگے بہرے لوگوں کے سامنے اپنا نقطہ نظر ضروربیان کر دیا۔

اللہ کرے وہ وقت جلد آئے جب سیاستدان یا حکمران سوال کا جواب سوال سے دینے کی بجائے اپنی دلیلوں سے نامہ نگاروں کو اس طرح قائل کرنا شروع کردیں کہ مستقبل میں کسی کو ان دلائل کو جھوٹا کہنے کی ضرورت نہ پڑے۔ تب تک حاکم وقت کے ارشادات سننتے جائیے اور تماشہ دیکھتے جائیے۔